اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پانچ سال تک اپنی والدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں سال جناب خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا۔ آپ (س) کفار مکہ کی طرف سے اپنے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی جانے والی تمام مشکلات و تکالیف میں ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ کبھی بابا کے جسم اطہر سے خون صاف کرتیں اور مرہم پٹی کرتیں تو کبھی مشرکین کی طرف سے پھینکا گیا کوڑا کرکٹ اپنے بابا کے جسم سے صاف کرتیں۔

جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے کم سنی کے باوجود نہایت بہادری، حوصلہ مندی اور صبر و تحمل سے ان حالات کا سامنا کیا اور اپنے بزرگ مرتبہ باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد گار بنی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ (س) کو ’’ام ابیھا‘‘ کے لقب سے نوازا۔

ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحکم خدا اپنی بیٹی کا عقد حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرما دیا اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت علیؑ کے علاوہ آپ کا کوئی ہمسر و کفو نہیں تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر حق مہر ادا کیا اور اسی سے حاصل شدہ رقم سے آنحضرتؐ نے ایک مختصر جہیز اپنی بیٹی کو عطا فرمایا اور ایک مختصر ولیمہ ہوا اور رخصتی کا عمل انجام پایا۔ اس طرح کائنات کے سب سے عظیم جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے۔

مختلف جنگوں اور غزوات میں آپ (س) اپنے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی مدد گار و معاون تھیں۔ جب کبھی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم سلام اللہ علیہا ان کے زخموں کو صاف کرتیں اور حضرت علی علیہ السلام کی خون آلود تلوار کو بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی تھیں۔ آپ )س( اچھی طرح جانتی تھیں کہ عورت کا جہاد گھر کی چاردیواری کے اندر ہوتا ہے لہٰذا کبھی آپ (س) نے میدان جنگ میں قدم نہیں رکھا۔

آپ (س) صرف ایک موقع پر نصرت اسلام کے لیے اپنے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شوہر نامدار علیہ السلام کے ہمراہ گھر سے باہر نکلیں اور وہ نصاریٰ نجران سے مباہلے کا موقع تھا کیونکہ یہ ایک پر امن مقابلہ تھا اور اس میں روحانی فتح کا سوال تھا۔ اس معرکے میں نجران کے عیسائیوں نے مباہلے سے انکار کر دیا اور اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔

28 صفر 11ھ کو آپؑ کے والد بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال سیدہ عالم سلام اللہ علیہا کے لیے ایک عظیم صدمہ ثابت ہوا۔ مگر افسوس کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو اس عظیم مصیبت کے موقع پر تسلی و تشفی دینے کے بجائے اہل زمانہ کا رخ آپ (س) کی عظمت کی طرف سے پھر گیا اور ظلم کے عظیم پہاڑ آپ (س) پر توڑے جانے لگے۔

حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین لی گئی پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف بیعت پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ جبر و تشدد سے بھی کام لیا جانے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سیدہ عالم سلام اللہ علیہا کے گھر پر لکڑیاں جمع کی جانے لگیں اور اس دروازے کو آگ لگا دی گئی جس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ آیۃ تطہیر انما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطھر کم تطھیرا پڑھا کرتے تھے۔

اس وقت آپ (س) کو ایسا جسمانی صدمہ پہنچا جسے آپ (س) برداشت نہ کر سکیں اور یہی صدمہ آپ (س) کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیدہ عالم سلام اللہ علیہا کی زبان پر جاری ہونے والے اس پر سوز مرثیہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں فرمایا:

صبّت علیّ مصائب لو انھا صبت علی الایام صرن لیالی

یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔

سیدہ عالم سلام اللہ علیہا کو جو جسمانی و روحانی صدمات پہنچے ان میں سے ایک فدک کی جائیداد کا غصب کیا جانا بھی ہے جو رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ عالم سلام اللہ علیہا کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چھن جانا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لیے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ (س) کو اپنے حق کے مطالبے پر حکومت وقت کی طرف سے آپ (س) کے دعوے کو جھٹلانے پر ہوا اور یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا۔