اسلامی تعلیمات

فتح مکہ

رسول خداؐ اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر جو صلح ہوئی تھی اس کی شرائط میں یہ بات بھی داخل تھی کہ دونوں طرف کے ہم خیال اور پڑوسیوں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ قبیلہ بنی بکر قریش مکہ کے حلیف اور ہم خیال تھے، جبکہ بنو خزاعہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم خیال تھے۔ بنو خزاعہ اور بنو بکر کے درمیان سخت دشمنی تھی۔ ایک دفعہ بنوبکر کا ایک شاعر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو (ہتکِ حرمت) میں اشعار پڑھ رہا تھا تو بنی خزاعہ کے ایک غلام نے اسے منع کیا لیکن وہ نہ مانا تو اس غلام نے اس کو بہت مارا۔ جس پر بنو بکر بنو خزاعہ سے جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے اور قریش سے مدد مانگی۔

کفار قریش نے حدیبیہ کے مقام پر آنحضرتؐ سے جو معاہدہ کیا تھا وہ توڑ دیا اور بنو بکر کی مدد کی۔ اس لڑائی میں بنو خزاعہ کے 20 آدمی مارے گئے۔ آنحضرتؐ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپؐ نے تمام مسلمانوں کو مسلح ہو کر مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ چنانچہ 2 یا 10 رمضان المبارک 8ھ کو آپؐ مدینہ سے دس ہزار جانثاروں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستے میں آنحضرتؐ کے چچا جناب عباس بن عبد المطلبؑ بھی آپؐ سے آ ملے جو مکہ سے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ کی طرف آرہے تھے۔ ابھی لشکر اسلام مکہ سے باہر تھا کہ ابو سفیان وہاں آن پہنچا جناب عباسؓ نے اسے پناہ دی اور اسے اسلام لانے کا مشورہ دیا تاکہ اس کو امان مل جائے چنانچہ مجبوراً وہ اظہار اسلام پر آمادہ ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے امان دے دی اور ساتھ ہی اعلان فرمایا کہ جو شخص بھی بیت ابو سفیان، خانہ کعبہ یا بیت النبیؐ میں پناہ لے گا تو اس کو امان حاصل ہوگی۔

اس کے بعد مسلمانوں کا لشکر مکہ میں داخل ہو گیا خانہ کعبہ میں نماز ادا کی گئی اس کے بعد آپؐ نے مشرکین کو ان کے جرائم اور مظالم یاد دلائے اور ان سے سوال کیا کہ تم لوگ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو تو سہیل بن عمر نے کہا آپؐ خود کریم ہیں اور ایک کریم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا جاؤ میں نے تم سب کو آزاد کر دیا اس کے بعد عرب کے اکثر قبائل نے اسلام قبول کر لیا اور لشکر اسلام 10، 15 یا 18 دن قیام کرنے کے بعد واپس مدینہ چلا گیا۔ فتح مکہ کے بعد 9ھ 24 ذی القعدہ کو نجران کے مسیحوں سے مباہلہ طے پایا جو حضرت عیسیٰؑ کو خدا مانتے تھے اور قرآنی آیات پر ایمان نہ لائے انہوں نے آپؐ کو مباہلہ کے لیے دعوت دی تو آپؐ نے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کو ساتھ لیا اور مباہلہ کے لیے میدان میں آگئے۔ مگر ان عظیم الشان ہستیوں کی بد دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنے سے پہلے عیسائی گھبرا گئے اور شکست تسلیم کر لی اور جزیہ دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

الغرض ہجرت مدینہ کے بعد کفار کی طرف سے مسلسل مزاحمتوں اور جنگوں کا سلسلہ جاری رہا بعض معرکوں میں آپؐ نے خود شرکت فرمائی جنہیں غزوہ کہتے ہیں غزوات کی تعداد 26 یا 28 ہے۔ بعض معرکوں میں دوسرے مسلمانوں کو سردار بنا کر بھیجا جنہیں ’’سریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنکی تعداد تقریباً 36 ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سالہ مدنی زندگی کے دوران دینی ذمہ داریوں کے علاوہ جنگیں بھی شامل ہیں یوں کامیاب تبلیغی اور جنگی چالیں آپؐ کے عظیم کردار اور اعلیٰ قیادت کی دلیل ہے۔