اسلامی تعلیمات

باب 2 - خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپؐ اکثر غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس روز بھی آپؐ غار حرا میں مصروف عبادت تھے جب اللہ تعالیٰ نے سید الملائکہ حضرت جبرائیلؑ کو وحی دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ کی عمر 40 سال کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے دل کو زیادہ خشوع کرنے والا، زیادہ مطیع اور تمام دلوں سے زیادہ بزرگ پایا۔ پس آپؐ کی آنکھوں کو مزید نور بخشا اور حکم دیا کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جائیں اور ملائکہ فوج در فوج زمین کی طرف آنے لگے اور آنحضرتؐ انہیں دیکھتے تھے پس حضرت جبرائیلؐ نازل ہوئے اور انہوں نے اطراف زمین و آسمان کو گھیر لیا اور آنحضرتؐ کا بازو ہلا کر عرض کیا: پڑھیے! آپؐ نے فرمایا: کیا پڑھوں؟ تو حضرت جبرائیلؑ فرمانے لگے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (العلق:1)

(اے رسول) پڑھیے! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔

پس خدا کی وحی آپؐ تک پہنچائی اور یوں نبوت کا تاج آپؐ کے سر پر رکھ دیا گیا۔ جب آپؐ گھر پہنچے تو جناب خدیجہؓ نے عرض کیا:

یا محمدؐ ! یہ کیا نور ہے کہ جو میں آپؐ کے وجود میں دیکھ رہی ہوں؟ فرمایا یہ نور نبوت ہے تم کہو:

لا الہٰ الا اللّٰہ، مُحمَّدُ الرَّسولُ اللّٰہ

جناب خدیجہؓ عرض کرنے لگیں کہ مجھے تو کئی سال سے آپؐ کی نبوت کا علم و یقین ہے پھر انہوں نے آپؐ کی نبوت کی گواہی دی اور آنحضرتؐ پر ایمان لے آئیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے خدیجہؓ مجھے کچھ سردی محسوس ہو رہی ہے مجھ پر کوئی چادر ڈال دیں جب آپؐ سو گئے تو اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے حکم آیا:

یٰاَیُّھَاالْمُدَثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (المدثر:3‘2‘1)

اے چادر اوڑھنے والے! اٹھیے اور تنبیہ کیجیے اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجیے۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور نعرہ تکبیر ’’ اللّٰہ اکبر ‘‘ بلند کیا تو آپؐ کی آواز ہر موجود تک پہنچ گئی اور تمام موجودات آپؐ کے ہم آواز ہو گئے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے ہجرت مدینہ تک

آنحضرتؐ مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد 3 سال تک مخفیانہ طور پر لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ تین سال کے بعد آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اب اعلانیہ طور پر لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں۔ پس آپؐ کوہ صفاء پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو دین مبین کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ لوگوں کی ایک قلیل جماعت آپؐ پر ایمان لے آئی اور آپؐ کا ساتھ دینے لگی۔ آپؐ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت کی طرف دعوت دینے لگے اور انہیں بتوں کی پوجا سے منع فرمانے لگے۔

چنانچہ مکہ کے کفار و مشرکین آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے اور جس شخص کو جسمانی اذیت نہیں پہنچا سکتے تھے اسے زبانی تکلیف پہنچاتے اور جس کا کوئی قوم و قبیلہ نہ تھا اسے عذاب و عتاب کا شکار بناتے یا مکہ کی گرمی میں اسے بھوکا اور پیاسا کھڑا کر دیتے تھے۔ بعض اوقات اسے لوہے کی ذِرہ پہنا کر سورج کے سامنے کھڑا کرتے تاکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دین سے دستبردار ہو جائے۔

ادھر دو برس کی عمر میں آپؐ کے فرزند حضرت قاسمؓ کا انتقال ہو گیا تو دشمن نے آپؐ کو روحانی اذیت پہنچانی شروع کر دی وہ آپؐ کو ابتر کہہ کر پکارنے لگے گویا آپؐ کی نسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اور جس کی نسل ہی باقی نہ رہے تو اس کا دین اور مذہب کیا باقی رہے گا۔ قدرت نے اس طعنہ ابتر کے جواب میں 20 جمادی الثانی 5 بعثت کو سرچشمہ کوثر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مقدس ہستی کا تخفہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمایا اور آپؐ کے دشمن کے ابتر ہونے کا اعلان کر دیا۔

جب کفار قریش کے ظلم و ستم بہت زیادہ بڑھ گئے اور مسلمانوں کے لیے مزید صبر و برداشت مشکل ہو گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاہی کہ وہ کسی اور شہر چلے جائیں چنانچہ آنحضرتؐ نے انہیں اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں کیونکہ حبشہ کے لوگ عیسائی ہیں اور ان کا بادشاہ نجاشی ایک رحم دل انسان ہے۔ چنانچہ 80 کے قریب خواتین اور مردوں پر مشتمل ایک وفد نجاشی بادشاہ کی پناہ میں حبشہ پہنچ گیا اور وہاں امن و امان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔

جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ مسلمان ہجرت کرکے بادشاہ حبشہ کی پناہ میں جا پہنچے ہیں اور مکہ کے باقی ماندہ مسلمان جناب ابوطالبؑ کی پناہ میں ہیں تو انھوں نے ایک جلسہ کیا اور تمام قریش نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر لیا۔

جب حضرت ابو طالبؑ کو یہ خبر ملی تو انہوں نے اولاد ہاشم و عبدالمطلب کو جمع کیا اور ان کے اہل و عیال سمیت اس درّہ میں سکونت اختیار کر لی جسے ’’شعب ابی طالب‘‘ کہتے ہیں اور اس درّے کے دونوں اطراف میں نگہبان مقرر کر دیے۔ رات کے وقت اپنے بیٹے حضرت علیؑ کو بستر رسول اکرمؐ پر سلاتے اور رسول اکرمؐ کو علیؑ کے بستر پر سلا دیتے تاکہ دشمن کے حملہ کی صورت میں آپؐ محفوظ رہیں۔ حضرت حمزہؓ ساری رات تلوار لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھومتے رہتے۔ جب کفار نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کسی بھی طرح رسائی ممکن نہیں ہے تو ان کے سرداروں میں سے 40 افراد دارالندوہ میں جمع ہوئے اور عہد کیا کہ اولاد عبد المطلب اور بنو ہاشم کے ساتھ معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جائے اور ہر قسم کا تعلق ان کے ساتھ ختم کر دیا جائے جب تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے قبضہ میں نہ دے دیں تاکہ انہیں قتل کر دیں۔

اس معاہدے کے بعد اہل مکہ میں سے کسی بھی شخص کو ان کے ساتھ خرید و فروخت کی جرأت نہ رہی۔ تین سال تک یہ سلسلہ جاری رہا اور یہ عرصہ اولاد ہاشم و عبدالمطلب نے انتہائی بھوک، افلاس اور کسمپرسی کی حالت میں گزارا۔ یہاں تک کہ بعض مشرکین اس عہد و پیمان پر نادم و پشیمان ہوئے اور بالآخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عہد نامے کی تحریر کے بارے میں کی گئی درست پیشین گوئی کے بعد بائیکاٹ ختم کر دیا گیا۔ بعثت کے دسویں سال جناب ابوطالبؑ اور جناب خدیجہ (س) کی وفات ہو گئی ان ہستیوں کی وفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت گراں گزری اسی لیے آپؐ نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی غمی اور دکھ کا سال قرار دیا۔