ان حالات میں کہ جہاں آپ کی پالیسی میں اولین مقام علمی امور کی انجام دہی اور اصحاب کی تربیت کو حاصل تھی وہاں دوسری طرف آپؑ کی حکومت وقت کے خلاف سیاسی جدوجہد اس وقت کی حکومت سے آپؑ کی نا راضگی اسے غیر قانونی قرار دینے اور اسلام و مسلمین کے لیے خاندان رسالت کی امامت و قیادت کے دعویٰ کی حد تک محدود تھی۔ کیونکہ امامؑ کے خیال میں ضروری مقدمات فراہم کیے بغیر (جن میں اہم ترین علمی اور فکری کام تھا) حکمرانوں کے خلاف مسلح تحریک چلانے سے ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتا۔ اس مقصد کے لیے امامت پر پختہ عقیدہ رکھنے والی ایک وسیع تحریک کی ضرورت تھی اور قیام کے لیے امام جعفر صادق علیہ السلام کو مطلوبہ افراد کی تعداد میسر نہ تھی۔ دوسری طرف جب بنو عباس اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ بنو امیہ کو ختم کر دیں اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ آل رسول علیہم السلام کی دعوت کا حوالہ دیے بغیر لوگوں کو اپنا حامی بنانا مشکل ہے تو انہوں نے آل محمدؑ کی امداد اور انتقام کربلا کا نعرہ لگا کر بنی امیہ کے خلاف تحریک میں روح پھونک دی۔
اسی وجہ سے اکثر شیعیان بنی فاطمہ کو بھی ان سے ہمدردی پیدا ہوئی اور وہ ان کے معاون اور ہمرکاب ہو گئے۔ بنو عباس نے ابو سلمہ جعفر بن سلیمان کوفی کو آل محمدؑ کی طرف سے وزیر بنا دیا جو کہ آل رسول علیہم السلام کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا لیکن اسے امام جعفر صادق علیہم السلام کی طرف سے کوئی حمایت اور اجازت نہ تھی۔
جب حالات زیادہ سازگار نظر آنے لگے تو انہوں نے امام جعفر صادقؑ اور ابو محمد عبد اللہ بن حسن کو الگ الگ خط لکھا کہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ مدینہ میں جب قاصد خط لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو رات کا وقت تھا۔ قاصد نے عرض کی مولا میں ابو سلمہ کا خط لایا ہوں آپ اسے ملاحظہ فرما کر جواب عنایت فرمائیں۔ یہ سن کر امامؑ نے چراغ منگوایا اور خط لے کر اسی وقت پڑھے بغیر نذر آتش کر دیا کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام بنو عباس کی نیتوں سے اچھی طرح واقف تھے وہ فقط اہل بیت علیہم السلام کا نام استعمال کرکے حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے اور ان کی روش غیر اسلامی اور ظلم پر مبنی تھی لہٰذا امامؑ نے ان کی کسی بھی طرح سے حمایت نہیں فرمائی اس کے بعد آپؑ نے قاصد سے فرمایا کہ ابو سلمہ سے کہنا تمہارے خط کا یہی جواب ہے۔ ابھی وہ قاصد واپس پہنچا ہی نہ تھا کہ تین ربیع الاول 123ھ جمعہ کے دن حکومت کا فیصلہ ہو گیا اور حکومت عباسیوں کے ہاتھوں میں آچکی تھی ابو العباس سفاح خلیفہ بنایا جا چکا تھا۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
ان حالات میں کہ جہاں آپ کی پالیسی میں اولین مقام علمی امور کی انجام دہی اور اصحاب کی تربیت کو حاصل تھی وہاں دوسری طرف آپؑ کی حکومت وقت کے خلاف سیاسی جدوجہد اس وقت کی حکومت سے آپؑ کی نا راضگی اسے غیر قانونی قرار دینے اور اسلام و مسلمین کے لیے خاندان رسالت کی امامت و قیادت کے دعویٰ کی حد تک محدود تھی۔ کیونکہ امامؑ کے خیال میں ضروری مقدمات فراہم کیے بغیر (جن میں اہم ترین علمی اور فکری کام تھا) حکمرانوں کے خلاف مسلح تحریک چلانے سے ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتا۔ اس مقصد کے لیے امامت پر پختہ عقیدہ رکھنے والی ایک وسیع تحریک کی ضرورت تھی اور قیام کے لیے امام جعفر صادق علیہ السلام کو مطلوبہ افراد کی تعداد میسر نہ تھی۔ دوسری طرف جب بنو عباس اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ بنو امیہ کو ختم کر دیں اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ آل رسول علیہم السلام کی دعوت کا حوالہ دیے بغیر لوگوں کو اپنا حامی بنانا مشکل ہے تو انہوں نے آل محمدؑ کی امداد اور انتقام کربلا کا نعرہ لگا کر بنی امیہ کے خلاف تحریک میں روح پھونک دی۔
اسی وجہ سے اکثر شیعیان بنی فاطمہ کو بھی ان سے ہمدردی پیدا ہوئی اور وہ ان کے معاون اور ہمرکاب ہو گئے۔ بنو عباس نے ابو سلمہ جعفر بن سلیمان کوفی کو آل محمدؑ کی طرف سے وزیر بنا دیا جو کہ آل رسول علیہم السلام کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا لیکن اسے امام جعفر صادق علیہم السلام کی طرف سے کوئی حمایت اور اجازت نہ تھی۔
جب حالات زیادہ سازگار نظر آنے لگے تو انہوں نے امام جعفر صادقؑ اور ابو محمد عبد اللہ بن حسن کو الگ الگ خط لکھا کہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ مدینہ میں جب قاصد خط لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو رات کا وقت تھا۔ قاصد نے عرض کی مولا میں ابو سلمہ کا خط لایا ہوں آپ اسے ملاحظہ فرما کر جواب عنایت فرمائیں۔ یہ سن کر امامؑ نے چراغ منگوایا اور خط لے کر اسی وقت پڑھے بغیر نذر آتش کر دیا کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام بنو عباس کی نیتوں سے اچھی طرح واقف تھے وہ فقط اہل بیت علیہم السلام کا نام استعمال کرکے حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے اور ان کی روش غیر اسلامی اور ظلم پر مبنی تھی لہٰذا امامؑ نے ان کی کسی بھی طرح سے حمایت نہیں فرمائی اس کے بعد آپؑ نے قاصد سے فرمایا کہ ابو سلمہ سے کہنا تمہارے خط کا یہی جواب ہے۔ ابھی وہ قاصد واپس پہنچا ہی نہ تھا کہ تین ربیع الاول 123ھ جمعہ کے دن حکومت کا فیصلہ ہو گیا اور حکومت عباسیوں کے ہاتھوں میں آچکی تھی ابو العباس سفاح خلیفہ بنایا جا چکا تھا۔