اسلامی تعلیمات

1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں

امیرالمؤمنینؑ حضرت علی علیہ السلام کو یہ افتخار حاصل ہے کہ آپؑ نے اپنے بچپنے ہی سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی۔ حضرت زید بن علی بن حسینؑ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گوشت اور کھجور کو اپنے منہ سے نرم کر کے حضرت امام علی علیہ السلام کے دہن مبارک میں رکھتے تھے تاکہ آپؑ کو کھانے میں آسانی رہے اسی قرابت کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے۔

آپؑ خود فرماتے تھے کہ ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کسی اور نے مجھ سے پہلے نماز نہیں پڑھی‘‘۔ کم سنی میں ہی اسلام کی طرف آپؑ کی رغبت اور رسول خداؐ پر ایمان آپ کی فکری بلوغت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسلام کی راہ میں بے شمار قربانیوں کی وجہ سے آپؑ کے فضائل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکثرت احادیث ارشاد فرمائی ہیں۔

امام احمد ابن حنبل کہتے ہیں جتنے صحیح اور قابل قبول فضائل حضرت علی علیہ السلام کے بارے بیان ہوئے ہیں اتنے کسی اور صحابی رسولؐ کے بارے میں بیان نہیں ہوئے۔ چنانچہ کسی کا بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر موقع پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ ہجرت مدینہ کے بعد جب مواخات کا عمل پیش آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بھائی کے طور پر حضرت علی علیہ السلام کو انتخاب کیا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے علیؑ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو حضرت موسیٰؑ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا‘‘۔ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت سے نکلی ہوئی دو شاخوں اور بازو سے جڑے ہوئے ہاتھ کی مانند ہیں‘‘۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے تقریباً تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب ہو کر شرکت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنان اسلام سے حفاظت کرتے رہے۔

اگر علم و دانش کے میدان میں دیکھا جائے تو اصحاب رسولؐ میں کوئی بھی حضرت علی علیہ السلام کا ہمسر نہ تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین اور اصحاب رسول ؐکے کلمات میں بیان ہوئی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان کہ: ’’انا مدینہ العلم و علی بابھا‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔

اس حقیقت پر بہترین گواہ ہے خود امام علی علیہ السلام کا منبر پر بیٹھ کر یہ اعلان ’’سلونی سلونی قبل أن تفقدونی‘‘ ( مجھ سے پوچھ لو! اس سے پہلے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں) آپؑ کے عظیم علم و دانش کا مظہر ہے حضرت سعید ابن مسیبؓ کے بقول یہ دعویٰ امام علی علیہ السلام کے علاوہ کسی بھی صحابی نے نہیں کیا۔

عالم اسلام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے بڑھ کر فقیہ ترین، زاہد ترین اور امت کی رہبری کے لائق کوئی اور شخص نظر نہیں آتا۔