اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

یہ آل محمد علیہم السلام کی تاریخ حیات کا عجیب و غریب سانحہ ہے کہ ہر امامؑ کو پہلے امامؑ کے مقابلہ میں تقریباً مختلف اور متضاد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ حکومت ایک حربہ کو آزمانے میں ناکام ہو جاتی تھی تو وہ حربہ تبدیل کر دیتی تھی اور بعد والے امامؑ کو بالکل نئے قسم کے حالات کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔ مثال کے طور پر معاویہ ابن ابی سفیان نے مولائے کائنات علیہ السلام سے صفین کے میدان میں انتہائی خونریز قسم کی جنگ کی اور ان کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام سے صلح کرنے پر آمادہ ہو گیا پھر معاویہ کے بیٹے یزید نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کربلا کا عظیم سانحہ پیش آیا۔

لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد طوق و سلاسل میں جکڑے ہوئے قیدی امام سجاد علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو قدرے موقع میسر ہوا تو انہوں نے کھل کر مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام سر انجام دیا۔ پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو تقریباً 14 سال قید میں رکھا گیا۔

امام علی رضا علیہ السلام نے 30 یا 35 سال اپنے والد بزرگوار کی امامت میں سیاسی و معاشرتی حالات کا گہرا مشاہدہ فرمایا اور قید و بند میں اپنے والد بزرگوار کی حکمت عملی کا مطالعہ فرماتے رہے کہ ان حالات میں حفاظتِ اسلام اور ترویج علوم آل محمدؐ کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جائے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بہیمانہ قتل اور جنازے کی بے حرمتی نے خلیفہ ہارون الرشید کے خلاف ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ اب اس میں مزید ظلم کی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ دوسری طرف اس نے اندرونی خلفشار اور قبائل کے دباؤ سے مجبور ہو کر سلطنت کو اپنے دو بیٹوں امین اور مامون کے درمیان تقسیم کر دیا اور یوں خود خلیفہ ہارون الرشید لاوارث اور بے بس ہو گیا۔ ان حالات کے پیش نظر امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی 17 سال قدرے سکون سے گزر گئے اور یوں لوگوں کی تربیت اور امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ لیکن یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حکمرانان وقت ہمیشہ امام معصوم کے وجود پر نور کو اپنی حکومتوں کے لیے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس منصب خلافت پر وہ قابض ہوئے بیٹھے ہیں اس کے حقیقی جانشین یہی آل رسول علیہم السلام ہیں۔ لہٰذا کسی بھی قسم کے انقلاب سے بچنے کے لیے امام معصوم پر گہری نظر رکھی جاتی اور انہیں مختلف بہانوں سے قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جاتا تھا۔

دنیاوی اقتدار اور حکومت کے بھوکے ہارون الرشید کے دونوں فرزند امین اور مامون کے درمیان خونریز جنگ ہوئی جس کا نتیجہ امین کی شکست و موت اور مامون کی فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ اپنی ہوشیاری اور زیرکی کے باعث مامون خلافت مسلمین کے عہدے پر قابض ہوتے ہی اقتدار کو مضبوط کرنے کے حربے آزمانے لگا۔

مامون اس بات کو اچھی طرح بھانپ چکا تھا کہ امام علی رضا علیہ السلام کی شخصیت لوگوں میں نمایاں ہو چکی ہے۔علم اور تقویٰ کی بناء پر لوگ امام علی رضا علیہ السلام کو دل سے اپنا پیشوا اور خلیفہ رسولؐ مانتے ہیں اور یہ چیز مامون کی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ جہاں تک ہو سکے ان کے روحانی اور معنوی نفوذ کو کم کیا جائے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے خلاف اس طرح کام کیا جائے کہ جس سے عوام میں غم و غصہ کی لہر نہ دوڑ سکے اس سے بہتر کیا ہو گا کہ آئمہ اہل بیتؑ کی محبوبیت کے عوامل ہی کو ختم کر دیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ آل رسولؐ کی علمی ہیبت و سطوت کو منہدم کر دیا جائے۔

اس فکر کی بنیاد پر مامون چارہ سازی میں مشغول ہو گیا اور وہ اپنے زعم میں امامؑ کی علمی عظمت کو ختم کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے علم و دانش کو ترقی دی۔ علماء و دانشوروں کو جمع کیا انہیں یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا ان علماء کو بہت زیادہ احترامات اور سہولیات سے نوازا خصوصا مجمع عام میں ان کا احترام کیا کرتا تھا۔ اس طرح وہ امام علی رضا علیہ السلام کے مقابلے میں ایسے علماء کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔ امام معصوم کی معرفت اور ان کی علمی پیمائش سے ناآشنا مامون یہ خیال کر رہا تھا کہ ان علماء سے مباحثے اور مناظرے کے ذریعے وہ امام علی رضا علیہ السلام کو لاجواب و عاجز کر دے گا اور یوں آپؑ کی علمی عظمت و سطوت گھٹ جائے گی۔

اس غلط فکر کی بنیاد پر اس نے ماہ شوال 200ھ میں امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراساں بلا لیا۔ مامون نے اپنے ناپاک منصوبوں کو خفیہ رکھنے اور لوگوں کو حقائق سے منحرف کرنے کے لیے امام علی رضا علیہ السلام کو نہ صرف خراسان تشریف لانے بلکہ انہیں خلافت قبول کرنے کی بھی درخواست کی۔ تاریخ نے اس واقعہ کو اس طرح لکھا ہے

مامون: اے فرزند رسول! منصب خلافت کے لیے میں اپنے سے زیادہ شائستہ آپ کو سمجھتا ہوں لہٰذا میں اسے آپؑ کے سپرد کر کے اس سے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں۔

امام علی رضاؑ: اگر یہ منصبِ خلافت خدا نے تمہیں دیا ہے اور تمہارا حق ہے تو اس سے دست بردار ہونا اور اسے دوسروں کے سپرد کرنا درست نہیں اور اگر یہ تیرا حق نہیں ہے تو غیر کی چیز کو تم کسی دوسرے کے حوالے کیسے کر سکتے ہو؟

مامون: ہر صورت آپؑ کو یہ منصب قبول کرنا ہے۔

امام علی رضاؑ: میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا اور بہ رضا و رغبت تمہاری بات کو قبول نہیں کروں گا۔

مامون: واقعاً آپ مائل نہیں ہیں؟

امام علی رضاؑ: قطعاً مائل نہیں ہوں۔

مامون: میری ولیعہدی قبول کر لیجیے!

امام علی رضاؑ: میں اسے بھی قبول نہیں کر سکتا۔

مامون: خواہ نہ خواہ یہ قبول کرنا ہی پڑے گا، اسے قبول کرنے کے لیے میں آپؑ کو مجبور کر دوں گا۔

امام علی رضاؑ: تم مجھے ڈراتے ہو؟

مامون: ہاں یہ میری دھمکی ہے ولیعہدی قبول کر کے آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔

امام علی رضا علیہ السلام سمجھ چکے تھے کہ مامون اپنے سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنے منصب و مقام کو محفوظ رکھنے کے لیے میرے وجود سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے خلافت حاصل کرنے کے چکر میں اپنے بھائی امین کو بھی قتل کر دیا ہے لہٰذا کچھ بھی اس شخص سے بعید نہیں خواہ میرا قتل ہی کیوں نہ ہو اب حالات نازک اور خطرناک ہیں لہٰذا مجبوراً قبول کرنا پڑے گا۔ آپؑ نے فرمایا: جب بات جبر اور دھمکی کی حد تک پہنچی ہے تو میں مجبوراً ولیعہدی قبول کرتا ہوں لیکن تمہیں بھی میری کچھ شرائط قبول کرنا ہوگی۔

مامون نے اپنا منصوبہ کامیاب ہوتے دیکھا تو مسکرایا اور اس کا بگڑا ہوا چہرہ کھل اٹھا اور کہنے لگا: اپنی شرائط بیان کریں، قبول کروں گا۔

امام رضاؑ نے فرمایا:

میں ان شرائط کے ساتھ ولیعہدی قبول کرتا ہوں کہ میں سیاسی اور حکومتی امور میں دخل نہیں دوں گا اور نہ میں کسی حاکم کو معزول کروں گا اور نہ ہی کسی کو حاکم مقرر کروں گا میں کسی کام میں مداخلت نہیں کروں گا۔

امام علی رضا علیہ السلام نے بادل نخواستہ، مجبورا ولیعہدی قبول فرمائی۔ اس لیے کہ آپؑ امام معصوم تھے آپؑ کی عصمت اور فریضہ امامت و ہدایت کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ آپ ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ تعاون کریں۔ آپؑ ایسی حکومت کے خواہاں تھے جس کی بنیاد عدل و انصاف پر استوار ہو۔

اگر آپؑ اس منصب کو قبول کر لیتے اور اس کے سیاسی امور کی انجام دہی کی ذمہ دار ی بھی قبول کر لیتے اور سرکاری کاموں میں مشغول ہو جاتے تو اس سے ثابت ہو جاتا کہ امامؑ ایسی حکومت کے کارناموں سے خوش ہیں۔ لہٰذا آپؑ نے حکومت کے امور سے الگ تھلگ رہ کر ولیعہدی کو قبول کر لیا۔ امامؑ کی باریک بین نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ اگر مامون کی پیشکش کو سختی سے رد کر دیا تو آپؑ پر سخت طریقہ سے نظر رکھی جائے گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ آپؑ کو شہید کر دیا جاے گا۔ اور اس طرح آپؑ امامت کے فرائض سرانجام نہیں دے سکیں گے جو اللہ نے آپؑ کے سپرد کیے ہیں۔

اس طرح امام علی رضاؑ نے سیاسی امور میں مداخلت کے بغیر ولیعہدی کو قبول فرما کر ضرورت اور مصلحت کو بہترین طریقے سے جمع کیا اور پھر اپنی علمی حیثیت اور منصب سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے علمی مکتب کو پہچنوانے اور پھیلانے میں مشغول ہو گئے۔ اس نازک اور خطرناک دور میں امامؑ اس عہد کے بڑے بڑے علماء و دانشمندوں کے علمی مذاکروں اور مناظروں میں جاتے اور اسلام کی علمی منطق اور اس کے شکوہ و جلال کو نمایاں کرتے۔ ان علمی محافل میں شریک تمام دانشور آپؑ کی فضیلت و برتری اور اپنی عاجزی اور کم علمی کا اعتراف کرتے تھے۔ لہٰذا علمی حلقوں میں امامؑ کی شخصیت کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔