اسلامی تعلیمات

2۔ جنگ صفین

جنگ جمل کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا اس زمانہ میں اہل شام پر معاویہ ابن ابی سفیان حکومت کر رہا تھا۔ شام کے علاوہ باقی تمام علاقے امامؑ کی بیعت کر چکے تھے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ سے معاویہ کے نام خط لکھ کر اسے مسلمانوں کے امامؑ کی اطاعت پر قائل کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں معاویہ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خود کو خونِ عثمان کا ولی قرار دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو مورد الزام قرار دیا اور اہل شام کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خلاف بغاوت پر ابھارا۔ جب امامؑ کے متعدد فہمائش کے خطوط کا معاویہ پر اثر نہ ہوا تو آپؑ معاویہ کی سرکوبی کے لیے شوال 36ھ میں 90 ہزار کا لشکر لے کر مقام ’’رقہ‘‘ پر پہنچ گئے۔ ادھر معاویہ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر تھا۔ معاویہ کے لشکر نے صفین میں دریا پر قبضہ کر کے لشکر امامؑ کے لیے پانی بند کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے جوابی کاروائی کا حکم دیا اور لشکر نے دریا کو اپنے قبضہ میں لیا تو مجاہدین سے فرمایا خبردار! دشمن پر تم پانی بند نہ کرنا۔ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ محرم الحرام 37ھ آگیا تو جنگ موقوف ہو گئی اس کے بعد صفر شروع ہوتے ہی لشکر شام نے پھر حملہ کر دیا۔ ایک ہفتہ تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ لشکر شام کے 35000 ہزار افراد اور لشکر حضرت علی علیہ السلام کے تقریباً اس سے آدھے افراد کام آ گئے۔ اس دوران وہ قیامت خیز رات بھی آئی جسے ’’لیلۃ الھریر‘‘ کہتے ہیں۔ جس میں تمام رات جنگ جاری رہی اور طرفین کے 36000 ہزار افراد مارے گئے۔ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے 900 افراد کا کام تمام کیا۔

امامؑ کی فوج کے کمانڈر حضرت مالک اشترؓ معاویہ کے خیمے تک جا پہنچے اور قریب تھا کہ معاویہ کا خاتمہ ہو جائے کہ عمر ابن عاص نے 500 قرآن نیزوں پر بلند کرا کے یہ اعلان کر دیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح لشکر امیرالمؤمنینؑ میں پھوٹ پڑگئی۔ لوگ عمر ابن عاص کی چال میں پھنس گئے۔ بالآخر آپؑ کو تحکیم پر مجبور کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابوموسیٰ اشعری کو امام کی طرف سے جبکہ عمر ابن عاص کو معاویہ کی طرف سے حکَم مقرر کیا گیا۔ دونوں حکم ماہ رمضان المبارک میں ایک جگہ جمع ہوئے اور ابو موسیٰ اشعری نے عمر و عاص کے چکر میں آکر منبر پر اعلان کر دیا کہ میں حضرت علی علیہ السلام کو معزول کرتا ہوں لہٰذا قوم اپنا حاکم خود مقرر کرلے۔ جب کہ دوسری طرف عمرو بن عاص نے اعلان کیا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو ان کے نمائندوں نے معزول کر دیا ہے تو میں معاویہ ابن ابو سفیان کو برقرار رکھتا ہوں۔ یہاں سے ہی ایک گروہ ’’خوارج‘‘ الگ ہو گیا۔ اور یوں اس بھیانک انجام پر اس جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔