جنگ جمل کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا اس زمانہ میں اہل شام پر معاویہ ابن ابی سفیان حکومت کر رہا تھا۔ شام کے علاوہ باقی تمام علاقے امامؑ کی بیعت کر چکے تھے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ سے معاویہ کے نام خط لکھ کر اسے مسلمانوں کے امامؑ کی اطاعت پر قائل کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں معاویہ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خود کو خونِ عثمان کا ولی قرار دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو مورد الزام قرار دیا اور اہل شام کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خلاف بغاوت پر ابھارا۔ جب امامؑ کے متعدد فہمائش کے خطوط کا معاویہ پر اثر نہ ہوا تو آپؑ معاویہ کی سرکوبی کے لیے شوال 36ھ میں 90 ہزار کا لشکر لے کر مقام ’’رقہ‘‘ پر پہنچ گئے۔ ادھر معاویہ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر تھا۔ معاویہ کے لشکر نے صفین میں دریا پر قبضہ کر کے لشکر امامؑ کے لیے پانی بند کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے جوابی کاروائی کا حکم دیا اور لشکر نے دریا کو اپنے قبضہ میں لیا تو مجاہدین سے فرمایا خبردار! دشمن پر تم پانی بند نہ کرنا۔ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ محرم الحرام 37ھ آگیا تو جنگ موقوف ہو گئی اس کے بعد صفر شروع ہوتے ہی لشکر شام نے پھر حملہ کر دیا۔ ایک ہفتہ تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ لشکر شام کے 35000 ہزار افراد اور لشکر حضرت علی علیہ السلام کے تقریباً اس سے آدھے افراد کام آ گئے۔ اس دوران وہ قیامت خیز رات بھی آئی جسے ’’لیلۃ الھریر‘‘ کہتے ہیں۔ جس میں تمام رات جنگ جاری رہی اور طرفین کے 36000 ہزار افراد مارے گئے۔ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے 900 افراد کا کام تمام کیا۔
امامؑ کی فوج کے کمانڈر حضرت مالک اشترؓ معاویہ کے خیمے تک جا پہنچے اور قریب تھا کہ معاویہ کا خاتمہ ہو جائے کہ عمر ابن عاص نے 500 قرآن نیزوں پر بلند کرا کے یہ اعلان کر دیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح لشکر امیرالمؤمنینؑ میں پھوٹ پڑگئی۔ لوگ عمر ابن عاص کی چال میں پھنس گئے۔ بالآخر آپؑ کو تحکیم پر مجبور کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابوموسیٰ اشعری کو امام کی طرف سے جبکہ عمر ابن عاص کو معاویہ کی طرف سے حکَم مقرر کیا گیا۔ دونوں حکم ماہ رمضان المبارک میں ایک جگہ جمع ہوئے اور ابو موسیٰ اشعری نے عمر و عاص کے چکر میں آکر منبر پر اعلان کر دیا کہ میں حضرت علی علیہ السلام کو معزول کرتا ہوں لہٰذا قوم اپنا حاکم خود مقرر کرلے۔ جب کہ دوسری طرف عمرو بن عاص نے اعلان کیا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو ان کے نمائندوں نے معزول کر دیا ہے تو میں معاویہ ابن ابو سفیان کو برقرار رکھتا ہوں۔ یہاں سے ہی ایک گروہ ’’خوارج‘‘ الگ ہو گیا۔ اور یوں اس بھیانک انجام پر اس جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
2۔ جنگ صفین
جنگ جمل کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا اس زمانہ میں اہل شام پر معاویہ ابن ابی سفیان حکومت کر رہا تھا۔ شام کے علاوہ باقی تمام علاقے امامؑ کی بیعت کر چکے تھے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ سے معاویہ کے نام خط لکھ کر اسے مسلمانوں کے امامؑ کی اطاعت پر قائل کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں معاویہ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خود کو خونِ عثمان کا ولی قرار دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو مورد الزام قرار دیا اور اہل شام کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خلاف بغاوت پر ابھارا۔ جب امامؑ کے متعدد فہمائش کے خطوط کا معاویہ پر اثر نہ ہوا تو آپؑ معاویہ کی سرکوبی کے لیے شوال 36ھ میں 90 ہزار کا لشکر لے کر مقام ’’رقہ‘‘ پر پہنچ گئے۔ ادھر معاویہ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر تھا۔ معاویہ کے لشکر نے صفین میں دریا پر قبضہ کر کے لشکر امامؑ کے لیے پانی بند کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے جوابی کاروائی کا حکم دیا اور لشکر نے دریا کو اپنے قبضہ میں لیا تو مجاہدین سے فرمایا خبردار! دشمن پر تم پانی بند نہ کرنا۔ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ محرم الحرام 37ھ آگیا تو جنگ موقوف ہو گئی اس کے بعد صفر شروع ہوتے ہی لشکر شام نے پھر حملہ کر دیا۔ ایک ہفتہ تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ لشکر شام کے 35000 ہزار افراد اور لشکر حضرت علی علیہ السلام کے تقریباً اس سے آدھے افراد کام آ گئے۔ اس دوران وہ قیامت خیز رات بھی آئی جسے ’’لیلۃ الھریر‘‘ کہتے ہیں۔ جس میں تمام رات جنگ جاری رہی اور طرفین کے 36000 ہزار افراد مارے گئے۔ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے 900 افراد کا کام تمام کیا۔
امامؑ کی فوج کے کمانڈر حضرت مالک اشترؓ معاویہ کے خیمے تک جا پہنچے اور قریب تھا کہ معاویہ کا خاتمہ ہو جائے کہ عمر ابن عاص نے 500 قرآن نیزوں پر بلند کرا کے یہ اعلان کر دیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح لشکر امیرالمؤمنینؑ میں پھوٹ پڑگئی۔ لوگ عمر ابن عاص کی چال میں پھنس گئے۔ بالآخر آپؑ کو تحکیم پر مجبور کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابوموسیٰ اشعری کو امام کی طرف سے جبکہ عمر ابن عاص کو معاویہ کی طرف سے حکَم مقرر کیا گیا۔ دونوں حکم ماہ رمضان المبارک میں ایک جگہ جمع ہوئے اور ابو موسیٰ اشعری نے عمر و عاص کے چکر میں آکر منبر پر اعلان کر دیا کہ میں حضرت علی علیہ السلام کو معزول کرتا ہوں لہٰذا قوم اپنا حاکم خود مقرر کرلے۔ جب کہ دوسری طرف عمرو بن عاص نے اعلان کیا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو ان کے نمائندوں نے معزول کر دیا ہے تو میں معاویہ ابن ابو سفیان کو برقرار رکھتا ہوں۔ یہاں سے ہی ایک گروہ ’’خوارج‘‘ الگ ہو گیا۔ اور یوں اس بھیانک انجام پر اس جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔