متوکل عباسی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو شہید کرنے کا پروگرام بھی بنا لیا تھا مگر اپنے اس ناپاک ارادے کو عملی شکل دینے سے پہلے ہی ترکوں کے ہاتھ اس وقت قتل ہو گیا جب وہ رات کے وقت اپنے گھر میں سو رہا تھا۔ متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصرباللہ مسند اقتدار پر بیٹھا اور یہ امام علی نقی علیہ السلام سمیت خاندان علوی پر حکومتی دباؤ میں کمی کا سبب بنا اگرچہ بعض دوسرے شہروں میں شیعوں پر حکام کا ظلم و ستم جاری رہا۔
آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا آخری دور عباسی خلفا ء کی جانب سے پیدا کردہ شدید مشکلات اور گھٹن کا دور تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے اور ان شیعوں کے ائمہ طاہرین علیہم السلام سے تعلقات کے لیے ان علاقوں میں وکیل متعین کیے گئے تھے اور وکالت کا یہ سلسلہ امام علی رضا علیہ السلام کے دور سے شروع ہوا تھا۔ یہ وکلا امامؑ اور شیعوں کے درمیان روابط کی برقراری اور ان میں تنظیم کے ذمہ دار تھے۔ وہ خمس کو جمع کرکے امامؑ کی خدمت میں ارسال کرنے کے علاوہ دینی مشکلات کے حل میں اہم کردار کے مالک تھے بہر کیف وکلاء کا نظام شیعوں کے سیاسی اور فکر ی پوزیشن کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتا تھا۔ امام علی نقی علیہ السلام کا اپنے شیعوں سے رابطہ انہی وکلاء کے توسط سے قائم تھا۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے شیعوں میں پیدا ہونے والے بہت سے کلامی مسائل کا حل بھی پیش کیا چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار روایات بھی آپؑ سے منقول ہیں اس کے علاوہ آپؑ نے شیعوں کو معارف و علوم سے آشنا کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح ادعیہ و زیارات کا سلسلہ اپنایا ان دعاؤں اور زیارات کے ذریعے عوام اور اہل بیت علیہم السلام کے درمیان تعلق قائم کرنے، اہل بیت علیہم السلام کے عظیم مقام اور ان کی قیادت پر تاکید، ظلم و ستم کے خلاف جہاد اور خدا سے راز و نیاز کے اسلوب کے علاوہ بعض سیاسی اور سماجی مسائل کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی۔ اس تمام عرصے میں امامؑ نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور اس دوران حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی مختلف اذیتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 252ھ میں متوکل کا بیٹا معتز مسندِ اقتدار پر بیٹھا اور اپنے باپ کے مظالم کے سلسلے کو جاری رکھا اور امام علی نقی علیہ السلام پر عرصہ زندگی تنگ کر دیا اور بالآخر 3 رجب 254ھ میں امام علی نقی علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
شہادت
متوکل عباسی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو شہید کرنے کا پروگرام بھی بنا لیا تھا مگر اپنے اس ناپاک ارادے کو عملی شکل دینے سے پہلے ہی ترکوں کے ہاتھ اس وقت قتل ہو گیا جب وہ رات کے وقت اپنے گھر میں سو رہا تھا۔ متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصرباللہ مسند اقتدار پر بیٹھا اور یہ امام علی نقی علیہ السلام سمیت خاندان علوی پر حکومتی دباؤ میں کمی کا سبب بنا اگرچہ بعض دوسرے شہروں میں شیعوں پر حکام کا ظلم و ستم جاری رہا۔
آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا آخری دور عباسی خلفا ء کی جانب سے پیدا کردہ شدید مشکلات اور گھٹن کا دور تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے اور ان شیعوں کے ائمہ طاہرین علیہم السلام سے تعلقات کے لیے ان علاقوں میں وکیل متعین کیے گئے تھے اور وکالت کا یہ سلسلہ امام علی رضا علیہ السلام کے دور سے شروع ہوا تھا۔ یہ وکلا امامؑ اور شیعوں کے درمیان روابط کی برقراری اور ان میں تنظیم کے ذمہ دار تھے۔ وہ خمس کو جمع کرکے امامؑ کی خدمت میں ارسال کرنے کے علاوہ دینی مشکلات کے حل میں اہم کردار کے مالک تھے بہر کیف وکلاء کا نظام شیعوں کے سیاسی اور فکر ی پوزیشن کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتا تھا۔ امام علی نقی علیہ السلام کا اپنے شیعوں سے رابطہ انہی وکلاء کے توسط سے قائم تھا۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے شیعوں میں پیدا ہونے والے بہت سے کلامی مسائل کا حل بھی پیش کیا چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار روایات بھی آپؑ سے منقول ہیں اس کے علاوہ آپؑ نے شیعوں کو معارف و علوم سے آشنا کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح ادعیہ و زیارات کا سلسلہ اپنایا ان دعاؤں اور زیارات کے ذریعے عوام اور اہل بیت علیہم السلام کے درمیان تعلق قائم کرنے، اہل بیت علیہم السلام کے عظیم مقام اور ان کی قیادت پر تاکید، ظلم و ستم کے خلاف جہاد اور خدا سے راز و نیاز کے اسلوب کے علاوہ بعض سیاسی اور سماجی مسائل کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی۔ اس تمام عرصے میں امامؑ نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور اس دوران حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی مختلف اذیتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 252ھ میں متوکل کا بیٹا معتز مسندِ اقتدار پر بیٹھا اور اپنے باپ کے مظالم کے سلسلے کو جاری رکھا اور امام علی نقی علیہ السلام پر عرصہ زندگی تنگ کر دیا اور بالآخر 3 رجب 254ھ میں امام علی نقی علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔
(اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)