اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

متوکل عباسی جس نے رجب 208ھ ہجری سے ربیع الاول 227ھ تک حکومت کی بنو عباس کے بد ترین اور ذلیل ترین خلفاء میں سے ایک تھا اسے بنو عباس کا یزید کہا جاتا ہے۔ متوکل کی بے ایمانی اور بدکرداری کا یہ عالم تھا کہ اس کے محل میں چار ہزار کنیزیں تھیں اور سب اس کے تصرف میں رہا کرتی تھیں وہ شراب بے تحاشا پیا کرتا تھا ہزاروں صاحبان ایمان اور سادات کا قاتل تھا اور خاندان اہل بیت علیہم السلام سے اسے سخت دشمنی تھی۔

ایک مرتبہ ابن السکیت جیسے صاحب کمال ادیب سے دریافت کیا کہ میرے دونوں فرزند بہتر ہیں یا حسنؑ و حسینؑ؟ ابن السکیت نے واضح الفاظ میں جواب دیا کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ تو کجا تیرے بیٹوں کا مقابلہ ان کے غلام قنبرؑ سے بھی نہیں ہو سکتا۔ متوکل یہ سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچوا لی درحالانکہ وہ دربار کے مقرب ترین افراد میں شمار ہوتا تھا۔ متوکل ہی نے شہداء کربلا علیہم السلام کے مزاروں اور قبر امام حسین علیہ السلام پر ہل چلانے اور وہاں کھیتی کرنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ اپنے اس ناپاک ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

جب مکہ و مدینہ میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور علمی کمالات کے چرچے متوکل عباسی تک پہنچے تو اس نے امامؑ کو مکہ و مدینہ میں اپنی حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور آپؑ کی مکمل نگرانی کا منصوبہ بنایا چنانچہ اس نے امامؑ کو خط لکھا اور آپؑ کو مرکز حکومت سامرا آنے اور وہیں قیام پذیر ہونے کی دعوت دی اس کے بعد اس نے یحییٰ بن ہرثمہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ تین سو سپاہیوں کے ہمراہ کوفہ جاؤ اور وہاں ساز و سامان رکھنے کے بعد صحرا کے راستے مدینہ جا کر علی ابن محمد نقی علیہما السلام کو عزت و احترام کے ساتھ سامرا لے آؤ۔

متوکل نے یہ پروگرام اس احتیاط سے تیار کیا کہ لوگ حساس نہ ہو جائیں اور امامؑ کو مجبور کر کے سفر پر آمادہ کرنا خطرناک نتائج کا سبب نہ بن جائے۔ لیکن مدینہ کے لوگ سمجھ گئے تھے کہ امامؑ کو درحقیقت اس طرح سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ عوام انتہائی غضبناک ہو گئی اور شدید مظاہرے شروع ہو گئے یہاں تک کہ یحییٰ بن ہرثمہ نے لوگوں کے سامنے یہ قسم کھائی کہ ’’مجھے امام علی نقی علیہ السلام کو اذیت و تکلیف دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جب امامؑ سامرا کے سفر کے لیے روانہ ہوں تو میں آپؑ کی خدمت میں رہوں‘‘۔

بالآخر حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مجبوراً متوکل کے کمانڈر یحییٰ بن ہرثمہ کے ساتھ سامرا کی طرف روانہ ہونا پڑا۔ جب امام علی نقی علیہ السلام سامرا پہنچے تو آپؑ کو ایک گھر میں رکھا گیا جہاں بظاہر تو نرمی کا برتاؤ ہوتا تھا لیکن حقیقت میں آپؑ کو ایک مستقل روحانی اور ذہنی اذیت میں رکھا گیا تھا۔کیونکہ آپؑ کی نقل و حرکت پر اور آپؑ سے ملنے والے لوگوں پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔

ایک مرتبہ متوکل کے پاس کسی نے شکایت کی کہ امام علی نقی علیہ السلام کے چاہنے والے ان کے گھر اسلحہ جمع کر رہے ہیں اور عنقریب حکومت کے خلاف قیام کر نے والے ہیں۔ متوکل نے راتوں رات تلاشی کا حکم دے دیا سپاہی گھر کے اندر داخل ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپؑ مصلیٰ پر بیٹھے تلاوت قرآن میں مصروف ہیں۔ آپؑ کو دربار میں لے جایا گیا اور متوکل کو خبر دی گئی کہ ان کے گھر میں کوئی اسلحہ نہیں ہے۔ اس نے حسب عادت امامؑ کی ضیافت بھی جام شراب سے کرنا چاہی تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’تجھے معلوم ہے کہ شراب آل محمدؐ کے گوشت و پوست میں جذب نہیں ہوئی ہے۔ پھر اس نے آپؑ سے شعر سنانے کا مطالبہ کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ میں شعر بہت کم پڑھتا ہوں لیکن اس نے اصرار کیا تو آپؑ نے دنیا کی بے ثباتی اور محل نشینوں کے انجام پر چند اشعار پڑھے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے ان اشعار نے تمام حاضرین بزم کو ہلا کر رکھ دیا یہاں تک کہ خود متوکل کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا اور اس نے امامؑ کو عزت و احترام کے ساتھ گھر پہنچانے کا حکم دیا۔

اس کے بعد بھی کئی مواقع پر امامؑ کے گھر کی تلاشی اور آپؑ کو مسلسل اذیت دینے کا سلسلہ جاری رہا۔ متوکل اس بات پر اصرار کیا کرتا تھا کہ امامؑ اس کی محفلوں میں موجود رہا کریں جس کا مقصد ظاہراً یہی تھا کہ وہ مختلف طرح سے آپؑ کی توہین کرے اور آپؑ کو لوگوں کی نظروں میں گرا کر آپؑ کے پیروکاروں کو آپؑ سے دور کر دے۔ مگر امامؑ سامرا میں ایسی بلند اور باعظمت شخصیت کے مالک بن چکے تھے کہ سب لوگ آپؑ کے سامنے انکساری کا مظاہرہ کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپؑ کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آتے اور آپؑ کا احترام کیا کرتے تھے۔