اسلامی تعلیمات

اخلاق و اوصاف

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور فضائل کے متعلق کتب میں بے شمار احادیث موجود ہیں۔ اپنے بچپن کے ابتدائی چھ سے سات سال آپؑ اکثر اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے حتیٰ کہ نماز کے وقت بھی آپؑ ان سے جدا نہیں ہوتے تھے۔ رسول کریم صلی علیہ و آلہ وسلم آپؑ اور آپ کے بھائی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ساتھ شدید اظہار محبت فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ:

الحسنؑ و الحسینؑ سیدا شباب اہل الجنۃ

حسنؑ اور حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں

آنحضرتؐ اپنے اصحاب کی محافل میں فرمایا کرتے تھے کہ:

من احب الحسنؑ والحسینؑ فقد احبنی و من اغضبھما فقد اغضبنی

جس نے حسنؑ اور حسینؑ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا

کبھی فرماتے تھے کہ:

ھما ریحانی من الدنیا

یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کے کئی مخصوص فضائل بھی نقل ہوئے ہیں جن میں سے مشہور روایت یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ:

حسینؑ منی و انا من الحسینؑ

حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔

حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام آنحضرتؐ کے زانوئے مبارک پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بوسے لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ:

تو سید و سردار ہے سید کا بیٹا ہے اور سادات کا باپ ہے۔ تو امام ہے امام کا بیٹا ہے اور ائمہ کا باپ ہے اور تو حجت ہے، حجت کا بیٹا ہے اور حجج الٰہی کا باپ ہے۔ تیرے صلب سے نو امام پیدا ہوں گے جن کا نواں قائم آل محمدؑ ہو گا۔

ابوبکر بن محمد بن حزام کہتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام ایک چبوترے کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر چند فقیروں پر پڑی جو عبائیں بچھائے خشک روٹیاں ان پر رکھ کر کھا رہے تھے۔ انہوں نے امامؑ کو کھانا کھانے کی دعوت دی تو امامؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھر نیچے اترے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ اس کے بعد ان سے فرمایا: تم نے مجھے دعوت دی اور میں نے قبول کی اب میں تمہیں دعوت دیتا ہوں اور تم قبول کرو۔ آپؑ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی کنیز سے فرمایا کہ جو کچھ تیار کیا ہوا ہے وہ لے آؤ اس کے بعد ان کو انعامات سے نواز کر رخصت فرمایا۔

آپؑ کے زہد و عبادت کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے 25 حج با پیادہ بجا لائے اور جب حج کا سفر کر تے تھے تو جانور آپؑ کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے۔

اپنے والد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ ان کی مخصوص غذا تناول فرماتے تھے آپؑ زہد و عبادت، علم و حلم اور صبر و شجاعت میں اپنے بابا کے ہمراہ، عہد توڑنے والوں اور ستم کاروں کے خلاف برسر پیکار تھے۔ امام حسین علیہ السلام جنگ صفین کے ابتدائی مرحلے میں شامیوں کے قبضے سے پانی کا گھاٹ چھڑوانے کی کاروائی میں شریک تھے اور اس کامیابی کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا:

ھذا اول فتح ببرکۃ الحسین علیہ السلام

یہ پہلی فتح حسین علیہ السلام کی برکت سے ہوئی ہے۔