اسلامی تعلیمات

امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا

ماہ رجب 60ھ میں امیر شام معاویہ بن ابو سفیان کی موت واقع ہوئی۔ معاویہ نے اپنے بعد یزید بن معاویہ کو امت مسلمہ کا خلیفہ بنا دیا۔ جبکہ وہ اپنے باپ کی طرح کسی بھی حیثیت سے مسلمانوں کا حکمران ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ یزید خاندانی اعتبار سے ابو سفیان کا پوتا تھا۔ یزید کی دادی ہندہ تھی کہ جس نے احد کے میدان میں سید الشہداء حضرت حمزہؓ کے کلیجہ کو نکال کر چبایا تھا اور ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔

یزید کا باپ معاویہ ایک چالاک حکمران، نفس رسول حضرت علی علیہ السلام سے عناد رکھنے والا اور کئی اصحاب رسولؐ اور محبان اہل بیت علیہم السلام کا قاتل تھا۔ یزید کی ماں میسون تھی جو کہ عیسائی خاندان کی ایک عورت تھی اور عیسائیت کی اسلام مخالف سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھیں۔

اگر یزید ابن معاویہ کے کردار کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کا کردار تو کردار، اس کا نام بھی اہل نظر و ادب کی نگاہ میں داخل دشنام ہے۔ یزید کی شخصیت کے تعارف کے لیے امام حسین علیہ السلام کے وہ جملات ہی کافی ہیں کہ جن میں آپؑ نے فرمایا:

یزید ایک فاسق و فاجر، شرابی، بے گناہ افراد کا قاتل، اور سر عام فسق و فجور کا ارتکاب کرنے والا شخص ہے۔

اہلسنت کے مورّخ علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ:

’’یزیدبن معاویہ ناصبی، بد سرشت، بد کردار، شرابی اور بد کار انسان تھا۔ اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین ابن علی علیہما السلام کے قتل سے کیا اور انجام واقعہ حرہ پر کیا‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ یزید کی شخصیت عالم اسلام میں مورد لعن و طعن بن گئی۔ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے کہ احمد بن حنبل کے فرزند عبداللہ نے اپنے باپ سے یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:

جس پر خدا نے لعنت کی ہو اس پر کس طرح لعنت نہ کی جائے اور اس کے بعد اس آیت کا حوالہ دیا کہ جہاں فساد فی الارض یعنی زمین میں فساد پھیلانے والوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے۔

یزید خلیفہ رسول کے نام پر اسلام کو پامال کرنا چاہتا تھا اس نے بھرے دربار میں بہ کمال بے حیائی کا یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اسلام صرف بنی ہاشم کا کھیل ہے نہ تو کوئی خبر آئی ہے نہ ہی کوئی وحی الٰہی آئی ہے۔

یزید نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے ان مخالفین سے بیعت لینے کی ہر ممکن کوشش شروع کر دی جن کی مخالفت اس کے خلاف کسی شورش کا باعث بن سکتی تھی۔

چنانچہ یزید نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو لکھا تھا کہ جلد از جلد عبداللہ ابن زبیر اور حسینؑ بن علیؑ سے میری بیعت لو۔ لہٰذا ولید نے امام حسین علیہ السلام کو دربار میں بلایا۔ آپؑ اپنے بعض ساتھیوں اور عزیزوں کو مسلح کر کے اپنے ساتھ دربار ولید میں لے آئے تاکہ کسی بھی ناگہانی خطرہ سے نمٹا جا سکے۔ ولید نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے بیعت کا مطالبہ رکھا تو امامؑ نے فرمایا کہ:

یزید جیسے شخص کے لیے خفیہ طور پر بیعت کرنا مناسب نہیں ہو گا بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے اور مسجد کے اندر بیعت کی جائے۔

ولید نے امامؑ کی بات مان لی مگر مروان بن حکم نے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے ولید کو امامؑ کی گرفتار ی پر اکسانے کی کوشش کی۔ اس پر امامؑ نے مروان کو سخت جواب دیا اور ولید کو مخاطب کر کے فرمایا:

ایھا الامیر! انا نحن اھل بیت النبوۃ و معدن الرسالۃ و مختلف الملائکہ و مھبط الرحمہ و بنا فتح اللہ و بنا یختم و یزید رجل شارب الخمر و قاتل نفس المحترمہ و معلن بالفسق مثلی لا یبایع مثلہ۔

اے امیر! ہم اہل بیت نبوت ہیں، معدن رسالت ہیں، فرشتوں کی آمد و رفت کی جگہ ہیں، نزول رحمت کا مقام ہیں، خدا نے ہم ہی سے آغاز کیا ہے اور ہم ہی پر اختتام کرے گا جب کہ یزید ایک فاسق، شرابی، بے گناہ افراد کا قاتل، سر عام فسق و فجور کا ارتکاب کرنے والا شخص ہے، مجھ (حسین) جیسا اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔

اسی موقع پر جب مروان نے بیعتِ یزید پر اصرار کیا تو امام حسینؑ نے فرمایا:

وعلی الاسلام السلام

تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے۔

’’اگر یزید جیسا شخص مسلمانوں کا حکمران بن جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے‘‘۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنی اس گفتگو میں اپنا موقف کھلے لفظوں میں بیان کر دیا کہ آپؑ یزید کی بیعت اور اس کی حکومت کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ آپؑ نے اپنے خاندان کی ممتاز صفات اور معاشرے میں اپنے مقام کی وضاحت کرنے کے بعد یزید کی خامیوں کو بھی بیان فرمایا جو امت اسلامیہ کی رہبری اور قیادت کے سلسلے میں اس کے دعوے کے جھوٹے ہونے اور اس منصب کے لیے اس کی نالائقی کی دلیل ہے۔

ولید ابن عتبہ کے دربار میں بیعت یزید کو سختی سے رد کرنے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے مدینہ منورہ میں قیام نا مناسب سمجھا اور آپ ماہ رجب کی 28 تاریخ کو مدینہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، اس سفر میں تمام اہل بیت رسول علیہم السلام آپؑ کے ہمراہ تھے صرف محمد بن حنفیہ مدینہ میں رہے۔ البتہ مدینہ چھوڑنے سے پہلے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا جس میں یزید کے خلاف قیام کے بنیادی عوامل کی طرف اشارہ فرمایا امامؑ نے فرمایا کہ

(مدینہ سے ) میرا نکلنا نہ خود پسندی اور نہ تفریح کی غرض سے ہے اور نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے۔ میں تو صرف اس لیے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور یوں (اس انجام دہی میں) اپنے نانا اور اپنے والد گرامی کی سیرت کی پیروی کروں۔

گویا امام حسین علیہ السلام کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اگر مجھ سے بیعت کا مطالبہ نہ بھی کیا جائے تب بھی میں خاموش اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا رہوں گا کیونکہ ارباب اقتدار سے میرا اختلاف محض یزید کی بیعت تک محدود نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یزید اور خاندان یزید ظلم و ستم، معاشرتی خرابیوں اور اسلامی احکام میں تبدیلی کا سبب بن رہا ہے اور بحیثیت امام میری ذمہ داری ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی انجام دہی، اپنے نانا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے احیاء اور والد بزرگوار علیہ السلام کی سیرت کو زندہ کرنے اور عدل و انصاف کے فروغ کے لیے میدان میں اتروں اور دشمن اسلام بنی امیہ کا قلع قمع کر دوں جو ان تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

جب امامؑ مکہ پہنچے تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مکہ اسلام کا دینی مرکز تھا اور قدرتی طور پر وہاں کثرت کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی امامؑ کا مختلف شخصیات سے رابطہ تھا۔ آپؑ نے ان سے یزید کی بیعت نہ کرنے کا سبب بھی بیان فرمایا۔