اسلامی تعلیمات

اخلاق و اوصاف

امام علی رضا علیہ السلام اپنے دادا امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے 15 روز بعد دنیا میں تشریف لائے۔ آپؑ کے دادا کی آرزو تھی کہ اپنے اس فرزند کو دیکھ لیتے جیسا کہ اپنے فرز ند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے فرمایا تھا:

’’عنقریب تمہارے ہاں ایک فرزند پیدا ہونے والا ہے جو ’’عالم آل محمدؑ ‘‘ہو گا کاش میں ان کو دیکھتا‘‘

امام علی رضا علیہ السلام گذشتہ و آئندہ کے زمانے کے حالات کا اچھی طرح علم رکھتے تھے۔ مامون کے دربار میں جس قدر مناظرے ہوئے سب میں علماء یہود و نصاریٰ، ملحدین اور ہر قسم کے دانشمندوں نے آپؑ کے بے پناہ علم و فضل کا اقرار کیا۔ محمد بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ میں نے آپؑ کے تحریری جوابات کو جمع کیا تو ان کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی۔

ایک عیسائی عالم جس کا نام جاثلیق تھا ہر مسلمان سے یہ کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت کا ہر کوئی اقرار کرتا ہے لہٰذا ان کی نبوت پر سب کا اتفاق ہے جبکہ تمہارے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا ہر کوئی اقرار نہیں کرتا لہٰذا ان کی شخصیت اختلافی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت و نبوت پر سب اتفاق کرتے ہیں تو ان کو مان لینا چاہیے اور اختلافی چیز (یعنی نبوت محمدیؐ) کا انکار کر دینا چاہیے۔ مسلمان علماء اس کی اس دلیل سے عاجز تھے لہٰذا امام علی رضا علیہ السلام کے سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ اتفاق اس عیسیٰؑ پر ہے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بشارت دینے آئے تھے۔ اور اللہ کی بندگی کیا کرتے تھے اگر اس کے علاوہ کوئی عیسیٰ ہے تو ہم مسلمان اس کو تسلیم نہیں کرتے۔

امام علی رضاؑ کی طرز زندگی کے متعلق شیخ صدوقؒ نے ابراہیم ابن عباس سے روایت کی ہے: کہ

’’نہ کبھی امام علی رضاؑ کو تند کلامی کرتے دیکھا گیا ہے اور نہ ہی کسی کی بات کو کاٹتے دیکھا گیا ہے۔ ہر شخص کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ آپؑ کسی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے اور نہ ہی محفل میں کسی کے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے۔ غلاموں کے ساتھ بھی سختی سے گفتگو نہ فرماتے اور بلند آواز سے قہقہہ نہیں لگاتے تھے، دستر خوان پر اپنے ساتھ تمام نوکروں کو بٹھا لیا کرتے تھے راتوں کو کم سوتے تھے اور اکثر راتوں میں شب بیداری فرماتے تھے۔ ہر مہینہ میں پہلی اور آخری جمعرات اور درمیانی بدھ (درمیانی عشرے کی پہلی بدھ) کو روزہ رکھتے تھے۔ رات کی تاریکی میں صدقات و خیرات عطا فرمایا کرتے تھے۔ صدقہ ہمیشہ چھپ کر دیتے تھے۔ اندر معمولی کپڑا پہنتے تھے اور باہر کبھی کبھی ضرورت کے اعتبار سے اچھا لباس زیب تن کیا کرتے تھے‘‘۔

آپ کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ ہم لوگ میوہ کھاتے وقت ایک حصہ کھاتے اور ایک حصہ پھینک دیتے تھے تو آپؑ نے تنبیہ فرمائی کہ رزق خدا کو ضائع مت کرو۔ جو ضرورت سے زیادہ ہو اسے فقراء و مساکین کو عنایت کر دیا کرو۔ اپنے شیعوں کو تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ تمہارے تمام اعمال ہر روز شام کے وقت تمہارے امام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور وہ تمہارے حق میں استغفار کرتے ہیں۔ (لہٰذا تم اپنے گناہوں سے ان کا دل مت دکھاؤ اور ایسے بن جاؤ جیسا کہ ان کے شیعوں کو ہونا چاہیے)۔