اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

تین برس تک امام محمد باقر علیہ السلام اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے زیر سایہ رہے۔ جب آپؑ کا سن مبارک پورے تین برس کا ہوا تو امام حسینؑ نے بمع اہل و عیال مدینہ سے سفر کا آغاز کیا اور اس کم سنی میں امام محمد باقرؑ بھی راستے کی تکلیفیں سہنے میں اپنے بزرگوں کے ساتھ شریک رہے۔ امامؑ نے کربلا کے میدان میں اپنے عزیز و اقارب کو بے دردی سے شہید ہوتے دیکھا اس کے بعد اپنے بابا امام زین العابدین علیہ السلام کے ہمراہ کوفہ و شام میں اپنے خاندان کی برگزیدہ خواتین کو بے مقنع و چادر دشمن کی قید میں دیکھا مگر ان تمام صدمات کو رضا الٰہی کی خاطر اپنے بابا کی طرح صبر و تحمل سے برداشت کیا۔

واقعہ کربلا کے بعد 61ھ سے 95ھ تک 34 برس اپنے مقدس باپ علیہ السلام کی سیرت و زندگی کا مطالعہ کرتے رہے اور اپنے فطری اور خداداد ذاتی کمالات کے ساتھ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے رہے جو انہیں اپنے والد بزرگوار علیہ السلام کی زندگی کے آئینہ میں برابر نظر آتی رہیں۔

جب آپؑ کے والد بزرگوار کی شہادت ہوئی تو آپؑ کی عمر مبارک 38 سال تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب بنی امیہ کی سلطنت اپنی مادی طاقت کے لحاظ سے بڑھاپے کی منزلوں سے گزر رہی تھی۔ بنی ہاشم پر ظلم و ستم اور خصوصا کربلا کے واقعہ نے بہت حد تک دنیا کی آنکھوں کو کھول دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں کئی تحریکوں نے جنم لیا جس سے سلطنت شام کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ لہٰذا امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ امامت کو حکومت وقت کے ظلم و تشدد کی گرفت سے کچھ آزادی نصیب ہوئی اور آپؑ کو خلق خدا کی اصلاح و ہدایت کا کچھ زیادہ موقع میسر آیا۔

سلطنت اسلامیہ حقیقت میں اہل بیت رسول علیہم الصلوٰۃ السلام کا حق تھی۔ مگر دنیا والوں نے مادی اقتدار کے آگے سر جھکا لیا تھا اور ان حضرات علیہم السلام کو گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑ ی تھی۔ مگر تحفظ دین اور بقاء اسلام کی خاطر اپنے فریضہ امامت کو پورا کرنے میں کبھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جس طرح امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے سخت موقعوں پر حکومت وقت کو مشورے دینے سے گریز نہیں کیا اسی طرح سلسلہ امامت کے تمام حضراتؑ نے اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کیا۔

چنانچہ 75ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام نے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا جو اسلامی تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ 75ھ تک مسلم ممالک میں بھی رومی سکے رائج تھے اور عیسائی ان سکوں کے ذریعہ اپنے عقائد کی ترویج کر رہے تھے چنانچہ عبد الملک نے اپنے دور حکومت میں ان سکوں کو ترک کرکے ان پر کلمہ ’’لا الہ الّا اللّٰہ‘‘ لکھنے کا حکم دے دیا۔ جب اس کی اطلاع قیصر روم کو ملی تو اس کو شدید غصہ آیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو وہ اپنے سکّوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گا۔ یہ سن کر عبدالملک کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ اس نے اپنے مشیروں سے مشاورت کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کو طلب کیا اور آپؑ سے اس مسئلے کا حل پیش کرنے کی استدعا کی۔

آپؑ نے فرمایا مسلمانوں کو خود اپنا سکہ ڈالنا چاہیے۔ جس کے ایک طرف ’’لا الہ الّا اللّٰہ‘‘ اور دوسری طرف ’’محمد رّسول اللّٰہ‘‘ نقش ہو۔ پھر اس سکے کو فوراً اسلامی ممالک میں رائج کرکے رومی سکے کو لغو قرار دیا جائے۔ عبد الملک نے آپؑ کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اس پر عملدرآمد شروع کرا دیا۔ قیصر روم کو جب یہ خبر پہنچی تو دنگ رہ گیا اور اسے اندازہ ہو گیا کہ خانوادہ رسالت کے علاوہ کوئی اور اس الہٰی سیاست کا وارث نہیں ہو سکتا ہے۔

باوجودیکہ امام محمد باقر علیہ السلام ملکی معاملات میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور اگر کبھی دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر اسلامی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کیا مگر آپؑ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی۔

چنانچہ ہشام بن عبد الملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کو ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے امام علیہ السلام کی شخصیت کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیں۔ چنانچہ دمشق پہنچنے کے بعد تین دن تک ہشام نے آپؑ سے ملاقات نہ کی اور چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا۔ جب امام باقر علیہ السلام دربار پہنچے تو اس وقت ہشام تخت شاہی پر بیٹھا ہوا تھا اور رؤسا سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ امامؑ کے پہنچنے پر ہشام نے جرأت اور جسارت کے ساتھ خواہش کی کہ آپؑ بھی تیر کا نشانہ لگائیں امام باقر علیہ السلام نے معذرت فرمائی مگر اس نے قبول نہ کیا وہ سمجھتا تھا کہ اتنا عرصہ گوشہ نشینی کی وجہ سے آل محمد علیہم السلام جنگ کے فنون سے بے بہرہ ہو چکی ہوگی۔ لہٰذا لوگوں کو ہنسنے اور تفریح کا موقع ملے گا۔

جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو آپؑ نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور چند تیر پے در پے ایک ہی نشانے پر بالکل ایک ہی نقطہ پر لگائے تو مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں۔ ہشام کو اپنے طرز عمل پر پشیمان ہونا پڑا۔ اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ دمشق میں امام باقر علیہ السلام کی موجودگی کہیں عوام کے دل میں اہل بیت علیہم السلام کی عظمت قائم کرنے کا سبب نہ ہو۔ اس لیے اس نے آپؑ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر اس کے دل میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔