اسلامی تعلیمات

جنگ نہروان

صفین سے لوٹتے ہوئے لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک گروہ تحکیم کے خلاف تھا اور دوسرا گروہ ان پر مسلمانوں کی جماعت سے علیٰحدہ ہو جانے کا الزام لگا رہا تھا۔ تحکیم کے مخالف گروہ نے ’’لا حکم الا لللّٰہ‘‘ (حکمیت (فیصلہ) کا حق صرف خدا کے پاس ہے) کا نعرہ لگا کر علم بغاوت بلند کر دیا اور نہروان کے مقام پر لوگوں کو ستانا شروع کر دیا۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے ان کی سرکوبی کے لیے نہروان کا رخ کیا اور بغداد سے چار فرسخ کی دوری پر 37ھ میں یہ معرکہ پیش آیا۔ ابتداء میں ان باغیوں کی تعداد بارہ ہزار تھی جو بعد میں ان کے باہمی انتشار کے باعث چار ہزار رہ گئی لیکن امیرالمؤمنینؑ کے لشکر نے ایسا حملہ کیا کہ 9 افراد کے علاوہ سب قتل کر دیے گئے اور یہ باغی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

معرکہ صفین کے بے پناہ قتل و خون کے بعد معاویہ کی مکاریوں سے حکمین کا فیصلہ اور اس کے بعد محمد ابن ابی بکرؓ اور مالک اشترؓ کا قتل، یہ وہ واقعات تھے کہ جنہوں نے حضرت علیؑ کو مجبور کر دیا کہ معاویہ کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کریں مگر امامؑ کا ساتھ دینے کے لیے تیار لوگوں کی تعداد بہت کم تھی اور دوسری طرف امیرالمؤمنین علیہ السلام کو لشکر کی روانگی سے قبل ہی شہید کر دیا گیا۔