امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی دو سال اپنے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زیر سایہ گزارے۔اس کے بعد واقعہ کربلا تک آپؑ اپنے عم نامدار حضرت امام حسن علیہ السلام اور اپنے والد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ رہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپؑ کی امامت کا آغاز ہوا اور اس سلسلے میں سب سے پہلی اور عظیم ذمہ داری جو آپؑ کے کندھوں پر عائد ہوئی وہ انقلاب عاشورا کو کامیاب بنانا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس وقت عہدہ امامت آپؑ کو ملا اس وقت اسلام تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا لوگوں نے ایک فاسق و فاجر، ظالم و شراب خور انسان کو مسند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بٹھا دیا تھا اور اس کے ہر حکم کو شرعی حکم اور اسلام کا درجہ دے رکھا تھا ان حالات میں امام سجاد علیہ السلام کو آثار نبوت و امامت اور مذہب کے بنیادی ارکان کا تحفظ کرنا تھا آپؑ کا مقابلہ اسی بنی امیہ سے تھا جن کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔
امیہ کی اولاد نے ایک بار پھر اسلامی معاشرے کو دور جاہلیت کی طرف لوٹا دیا تھا۔ ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا تھا ہر قسم کی طاقت اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ایسے خطرناک اور بدترین حالات میں بات صرف شہادتِ حسین ابن علی علیہ السلام پر منتہی نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک ایسی مقتدر شخصیت کی ضرورت تھی جو اسلامی معاشرے میں اس شہادت عظمیٰ کی نشر و اشاعت کرے اور فکری طور پر مردہ انسانوں میں از سر نو روح پھونک دے۔ ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو عدل دشمن عناصر کے مقابلے میں ڈٹ جائے اور لوگوں کی فکر اور سوچ کو دشمن کے ہاتھوں سے آزاد کرلے۔ ایسا انسان کہ جو امویوں کی سالہا سال تبلیغات کو ناکام بنا کر لوگوں کو دوبارہ دین حق کی طرف پلٹا دے اور اللہ نے یہ عظیم ذمہ داری عالم اسلام کے مقتدر انسان امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہما السلام کے دوش مبارک پر رکھی تھی۔
چنانچہ ابھی حادثہ کربلا کو دو دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے شہر کوفہ میں لوگوں کے سامنے ایک انقلابی خطبہ دیا اور ان کے سامنے یہ ثابت کیا کہ بنو امیہ کی روش غیر قانونی اور مذہب کے اصول و قواعد کے سراسر خلاف ہے۔ وہ اسلام کے لبادے میں اسلام ہی کو نیست و نابود کرنے کے لیے کس قدر کوشاں ہیں اور اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قتل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے حالت اسیری میں کوفہ و شام میں اپنے خطبات کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
شام میں یزید نے جب امامؑ سے نازیبا الفاظ میں گفتگو کی اس وقت آپؑ نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس میں شامیوں کے سامنے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا۔ مسجد میں موجود شامی، جو اموی پروپیگنڈے کی وجہ سے غفلت کا شکار تھے اور خاندان رسولؐ سے نا آشنا تھے انہیں امامؑ کے اس خطبے نے کسی حد تک آگاہ کیا اور ان پر بنو امیہ کا حقیقی چہرہ آ شکار ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ یزید نے خطبے کے دوران مداخلت کی اور اسے جاری نہ رہنے دیا۔ اس کے بعد لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آل رسولؐ کے قتل کا سارا گناہ عبید اللہ ابن زیاد کے سر تھوپ دیا علی ابن الحسین علیہ السلام اور دوسرے اسیران کربلا کو کچھ عرصہ قید میں رکھنے کے بعد مدینہ روانہ کر دیا۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
احوال و واقعات
امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی دو سال اپنے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زیر سایہ گزارے۔اس کے بعد واقعہ کربلا تک آپؑ اپنے عم نامدار حضرت امام حسن علیہ السلام اور اپنے والد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ رہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپؑ کی امامت کا آغاز ہوا اور اس سلسلے میں سب سے پہلی اور عظیم ذمہ داری جو آپؑ کے کندھوں پر عائد ہوئی وہ انقلاب عاشورا کو کامیاب بنانا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس وقت عہدہ امامت آپؑ کو ملا اس وقت اسلام تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا لوگوں نے ایک فاسق و فاجر، ظالم و شراب خور انسان کو مسند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بٹھا دیا تھا اور اس کے ہر حکم کو شرعی حکم اور اسلام کا درجہ دے رکھا تھا ان حالات میں امام سجاد علیہ السلام کو آثار نبوت و امامت اور مذہب کے بنیادی ارکان کا تحفظ کرنا تھا آپؑ کا مقابلہ اسی بنی امیہ سے تھا جن کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔
امیہ کی اولاد نے ایک بار پھر اسلامی معاشرے کو دور جاہلیت کی طرف لوٹا دیا تھا۔ ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا تھا ہر قسم کی طاقت اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ایسے خطرناک اور بدترین حالات میں بات صرف شہادتِ حسین ابن علی علیہ السلام پر منتہی نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک ایسی مقتدر شخصیت کی ضرورت تھی جو اسلامی معاشرے میں اس شہادت عظمیٰ کی نشر و اشاعت کرے اور فکری طور پر مردہ انسانوں میں از سر نو روح پھونک دے۔ ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو عدل دشمن عناصر کے مقابلے میں ڈٹ جائے اور لوگوں کی فکر اور سوچ کو دشمن کے ہاتھوں سے آزاد کرلے۔ ایسا انسان کہ جو امویوں کی سالہا سال تبلیغات کو ناکام بنا کر لوگوں کو دوبارہ دین حق کی طرف پلٹا دے اور اللہ نے یہ عظیم ذمہ داری عالم اسلام کے مقتدر انسان امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہما السلام کے دوش مبارک پر رکھی تھی۔
چنانچہ ابھی حادثہ کربلا کو دو دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے شہر کوفہ میں لوگوں کے سامنے ایک انقلابی خطبہ دیا اور ان کے سامنے یہ ثابت کیا کہ بنو امیہ کی روش غیر قانونی اور مذہب کے اصول و قواعد کے سراسر خلاف ہے۔ وہ اسلام کے لبادے میں اسلام ہی کو نیست و نابود کرنے کے لیے کس قدر کوشاں ہیں اور اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قتل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے حالت اسیری میں کوفہ و شام میں اپنے خطبات کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
شام میں یزید نے جب امامؑ سے نازیبا الفاظ میں گفتگو کی اس وقت آپؑ نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس میں شامیوں کے سامنے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا۔ مسجد میں موجود شامی، جو اموی پروپیگنڈے کی وجہ سے غفلت کا شکار تھے اور خاندان رسولؐ سے نا آشنا تھے انہیں امامؑ کے اس خطبے نے کسی حد تک آگاہ کیا اور ان پر بنو امیہ کا حقیقی چہرہ آ شکار ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ یزید نے خطبے کے دوران مداخلت کی اور اسے جاری نہ رہنے دیا۔ اس کے بعد لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آل رسولؐ کے قتل کا سارا گناہ عبید اللہ ابن زیاد کے سر تھوپ دیا علی ابن الحسین علیہ السلام اور دوسرے اسیران کربلا کو کچھ عرصہ قید میں رکھنے کے بعد مدینہ روانہ کر دیا۔