اسلامی حکومتکتب اسلامی

حکومتی غلطیاں اور اُن کا تدارک

سوال۴۲:حاکم اسلامی کی غلطیاں اورلغزشیں،دینی حکومت اور دین پر کتنا منفی اثر ڈالتی ہیں؟انہیں کنٹرول کرنے ، ان کی نگرانی کرنے اوران سے بچنے کے لیے کون سے طریقے ہیں؟
اس حوالے سے چند نکات کی طرف توجہ لازمی اور ضروری ہے ۔
الف: غلطیوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ہر ایک کا اپنا ایک خاص اثر ہوتا ہے اور ممکن ہے ایک ہی غلطی مختلف حالات میں مختلف اثرات مرتب کرے ،لہٰذا ایک ہی جملے میں نہیں کہا جا سکتاکہ حکمرانوں کی غلطیوں کا فلاں خاص اثرمرتب ہوتاہے،لیکن حکمرانوں کی غلطیوں اور انحرافات کا ایک اہم ترین بُرا اثراجتماعی طورپرمقبولیت میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوتاہے ۔
ب: معصوم رہبر اور پیشوا ہر غلطی سے پاک و مبراہے لیکن غیر معصوم سے غلطی نہ ہونے کی توقع بے جا ہے ، اس کے باوجود اسلام نے غیبت کے دور میں اسلامی حکمران کے لیے شرائط مقرر کی ہیں ، ان شرائط میں سے ایک علم اور تقویٰ ہے جو غلطیوں اور خطائوں میں کمی کا اہم ترین سبب ہے ، یہ شرائط دو قسم کا کنٹرول ہیں۔
۱۔ عقلی لحاظ سے کنٹرول ۲۔ اخلاقی اعتبار سے کنٹرول
اس کے علاوہ اسلام کے دیگر احکامات جیسے مشاورت کا ضروری ہونا اور اپنی رائے میں جبرواستبداد سے گریزکرنااوردیگر کنٹرول کرنے والے عوامل(کہ جن کی علیحدہ تشریح کی گئی ہے)ہیں جو غلطیوں اور خطائوں کے احتمال کونہایت کم کرنے میں مؤثرہیں اورانہیں صفرکر دیتے ہیں ۔
دوسری طرف مذکورہ اور دیگر لازمی شرائط(جیسے زمانے کے حالات سے آگاہی اور وسیع سطح پر انتظامی صلاحیت ) صرف اور صرف ابتدائی طور پر ضروری ہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے وقت ان کا ہونا ضروری ہو اور بعد میں ان کا ہونا ضروری نہ ہو بلکہ یہ ایسی شرائط ہیں جن کا ابتداء میں ہونا بھی ضروری ہے اور جب تک اقتدار باقی ہے اس وقت تک ان کا باقی رہنا بھی ضروری ہے ۔ بنا برایں رہبریت کے آغاز سے لے کر آخر تک ان شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور جب بھی ولی امر میں ان میں سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے وہ اپنے عہدے سے معزول ہو جائے گا ۔
ج: امرباالمعروف اورنہی عن المنکریاعمومی نظارت کا اصول ان ذرائع میں سے ایک ہے جس پراسلام بہت زوردیتا ہے، اس کے مطابق ہرمسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی نظام کے مسئولین(ذمہ داریوں)کی کارکردگی اورطرزعمل پرکڑی نگاہ رکھے اور انحراف یاخطا کو مشاہدہ کرنے کی صورت میں معاشرے کے مفاد کو پیش نظررکھتے ہوئے مناسب اور ہمدردانہ انداز میں انہیں نصیحت کرے اورمعاشرے کی فلاح وبہبوداور بہتری کے لیے تجاویز پیش کرے اور ان کی راہنمائی کرے ،دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اشتباہ اور غلطی دو طرح کی ہو سکتی ہے ۔

الف :ٹیکنیکل غلطیاں
ماہرانہ خطائیںیاٹیکنیکل غلطیوں سے مراد یہ ہے کہ بعض معاملات اور مسائل میں ماہرین اورمختص افرادکی آراء اور نظریات مختلف ہوتے ہیں، بعض اوقات وہ آراء و نظریات باہم متصادم ہوتی ہیں اور ان میں سے صرف ایک رائے صحیح اور باقی غلط ہوتی ہیں ۔
ظاہرہے کہ حکومت اسلامی کے ذمہ دار افراد یا حکمران کی رائے بھی انہی میں سے ایک ہوتی ہے ،اگرحکمران غیر معصوم ہو تو قبول شدہ رائے کے بارے میں صحیح اور غلط ہونے کے دونوں احتمال ہو سکتے ہیں، اس طرح کی احتمالی غلطیاں پورے طور پر طبیعی ہیں ان سے راہ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی ۔
ہرمعاشرے میں اس طرح کے معاملات موجود رہتے ہیں اور حکومت اور سیاست میں اتحاد وو حدت کے لیے ایک طرف کی رائے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے اگرچہ دلائل میں اختلاف کی صورت میں مخالف رائے اور نظریے کے صحیح ہونے کابھی اتنا احتمال ہے جتنا موافق رائے اور نظریے کے صحیح ہونے کا ۔
اس طرح کی چیزیں حکمران کے ضعف اور کمزوری کی قطعاً علامت نہیں ہیں اور رائے کے غلط ہونے کی صورت میں اگرچہ منفی اثرات تو ہوتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے وہ اتنے زیادہ نہ ہوں کیونکہ اس رائے کی عقلی توجیہ بھی موجود ہے اوربہت سارے ماہرین اورآگاہ افرادکی حمایت اورتائیدبھی اُسے حاصل ہوتی ہے ۔

ب:کمزوری کی وجہ سے غلطیاں
بعض غلطیاں کسی نظریے اور تحقیق کا نتیجہ نہیں ہوتیں بلکہ ان کا سرچشمہ اور بنیاد معاشرتی ضروریات اور دینی مآخذ سے ان کا مناسب حل دریافت کرنے سے عدم آگاہی ، ناتوانی اور کوتاہی ہوتی ہے ،اس قسم کی خطائوں اور غلطیوں کی مجلس خبرگان ، دین سے آگاہ ماہرین اور اجتماعی مسائل سے آگاہی رکھنے والے افراد کے ذریعے آسانی سے نشاندہی کی جا سکتی ہے اور انتظامی امور میں کسی شخص کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کو ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔
مسلّم بات ہے کہ اس قسم کے امور کے نقصانات اور منفی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ صاحب ِ منصب کے معزول ہونے کی صورت میں نکلتا ہے ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button