حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات

جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ (عج) سے ملاقات کرنا

کتاب قصص العلماٴ مولفہ علامہ تنکابنی ص۵۵ میں مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمد مہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں مرقوم ہے کہ ایک شب آپ اندرون حرم نماز میں مشغول تھے کہ اتنے میں امام عصر (عج) اپنے اب و جد کی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت ہوئی اور بدن میں ایک قسم کا رعشہ پیدا ہوگیا پھر جب وہ واپس تشریف لے گئے تو ان پر جو ایک خاص قسم کی کیفیت طاری تھی وہ جاتی رہی۔ اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں مندرج ہیں۔

ملا محمد باقر داماد کا امام عصرسے استفادہ کرنا

ہمارے اکثر علماٴ علمی مسائل اور مذہبی و معاشرتی مراحل حضرت امام مہدی (عج) ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقر داماد جو ہمارے عظیم القدر مجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضریح نجف اشرف میں ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں ان سے تحریرا کہا گیا کہ تمھارا امام زمانہ (عج) اس وقت مسجد کوفہ میں نماز گذار ہے تم وہاں جاؤ، وہ وہاں جاپہنچے، خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا۔ اورآپ اندر داخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اور آپ مطمئن ہوکر پلٹے۔

امام مہدی (عج) کی مومنین سے ملاقات:

رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں بحوالہ احادیث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہر مومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مومنین انھیں مصلحت خداوندی کی بناء پر اس طرح نہ پہچان سکین جس طرح پہچاننا چاہیے مناسب معلوم ہوتا ہے اس مقام پر میں اپنا ایک خواب لکھ دوں۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں امام زمانہ (عج) کے حالات لکھ رہاہوں حدیث مذکورہ پر نظر ڈالنے کے بعد فورا ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مولا سب کو دکھائی دیتے ہیں، لیکن مجھے آج تک نظر نہیں آئے، اس کے بعد میں استراحت کے لیے گیا اور سونے کے ارادے سے لیٹا ابھی نیند نہ آئی تھی اور قطعی طور پر نیم بیداری کی حالت میں تھا کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظر ایک قوسی خط پڑا ہوا ہے یعنی شمال کی جانب کا سارا حصہ عالم پہاڑ ہے اور اس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوار لئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیا آج ہی فتح کرلوں گا۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھا رہے ہیں آپ کا قد عام انسانوں کے قد سے ڈیوڑھا اور جسم دوہرا ہے، بڑی بڑی سرمگین آنکھیں اور چہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اور سارا لباس سفید ہے اور وقت عصر کا ہے۔
یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸شب یکشنبہ بوقت ساڑھے چار بجے شب کا ہے۔

پانچ سال کی عم رمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات

یعقوب بن منقوش و محمد بن عثمان عمری و ابی ہاشم جعفری اور موسی بن جعفر بن وہب بغدادی کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کی مولا! آپ کے بعد امر امامت کس کے سپرد ہوگا اور کون حجت خدا قرار پائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد میرے بعد حجت اللہ فی الارض ہوگا ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروا دیجئے آپ نے فرمایا وہ پردہ جو سامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ۔ ہم نے پردہ اٹھایا، تو اس سے ایک نہآیت خوبصورت بچہ جس کی عمر پانچ سال تھی برآمد ہوا، اور وہ آکر امام حسن عسکری کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ امام نے فرمایا کہ یہی میرا فرزند میرے بعد حجت اللہ ہوگا محمد بن عثمان کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اور ہم سب نے ان کی زیارت کی۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند امام مہدی کو حکم دیا کہ وہ اندر واپس چلے جائیں اور ہم سے فرمایا: ”شما اورا نخواھید دید غیر از امروز“ کہ تم آج کے بعد پھر اسے نہ دیکھ سکو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، پھر غیبت شروع ہوگئی (کشف الغمہ ص۱۳۹ وشواہدالنبوت ص ۲۱۳) علامہ طبرسی اعلام الوری کے ص ۲۴۳ میں تحریر فرماتے ہیں کہ آئمہ کے نزدیک محمد اور عثمان عمری دونوں ثقہ ہیں۔ پھر اسی صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ابو ہارون کا کہنا ہے کہ میں نے بچپن میں صاحب الزمان کو دیکھا ہے ”کانہ القمرلیلة البدر“ ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔

جزیرہ خضراٴ میں امام علیہ السلام سے ملاقات

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیام گاہ جزیرہ خضراٴ میں جو لوگ پہنچے ہیں۔ ان میں سے شیخ صالح، شیخ زین العابدین ملی بن فاضل مازندرانی کا نام نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ آپ کی ملاقات کی تصدیق، فضل بن یحیی بن علی طبیعی کوفی و شیخ عالم عامل شیخ شمس الدین نجح حلی و شیخ جلال الدین، عبداللہ ابن عوام حلی نے فرمائی ہے۔ علامہ مجلسی نے آپ کے سفر کی ساری روداد کو ایک رسالہ کی صورت میں ضبط کیا ہے۔ جس کا مفصل ذکر بحارالانوار میں موجود ہے رسالہ جزیرہ خضراء کے ص۱ میں ہے کہ شیخ اجل سعید شہید بن محمد مکی اور میر شمس الدین محمد اسداللہ شوشتری نے بھی تصدیق کی ہے۔

مؤلف کتاب ہذا کہتا ہے کہ حضرت کی ولادت حضرت کی غیبت، حضرت کاظہور وغیرہ جس طرح رمزخداوندی اورراز الہی ہے اسی طرح آپ کی جائے قیام بھی ایک رازہے جس کی اطلاع عام ضروری نہیں ہے، واضح ہوکہ کولمبس کے ادراک سے قبل بھی امریکہ کا وجود تھا۔

اسحاق بن یعقوب کے نام امام عصر کا خط:

علامہ طبرسی بحوالہ محمد بن یعقوب کلینی لکھتے ہیں کہ اسحق بن یعقوب نے بذریعہ محمد بن عثمان عمری حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت ایک خط ارسال کیا جس میں کئی سوالات مندرج تھے۔ حضرت نے بخط خود جواب تحریر فرمایا اور تمام سوالات کے جوابات تحریرا عنآیت فرمائے جس کے اجزاٴ یہ ہیں:
۱) جو ہمارا منکر ہے، وہ ہم سے نہیں۔
۲) میرے عزیزوں میں سے جو مخالفت کرتے ہیں، ان کی مثال ابن نوح اور برادران یوسف کی ہے۔
۳) فقاع یعنی جو کی شراب کا پینا حرام ہے۔
۴) ہم تمہارے مال صرف اس لئے (بطورخمس) قبول کرتے ہیں کہ تم پاک ہو جاؤ اور عذاب سے نجات حاصل کر سکو۔
۵) میرے ظہور کرنے اور نہ کرنے کا تعلق صرف خدا سے ہے جو لوگ وقت ظہور مقررکرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔
۶) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین قتل نہیں ہوئے وہ کافر جھوٹے اور گمراہ ہیں۔
۷) تمام واقع ہونے والے حوادث میں میرے سفراٴ پر اعتماد کرو، وہ میری طرف سے تمھارے لئے حجت ہیں اور میں حجت اللہ ہوں۔
۸) “محمد بن عثمان” امین اور ثقہ ہیں اور ان کی تحریر میری تحریر ہے۔
۹) محمد بن علی مہریار اہوازی کا دل انشاءاللہ بہت صاف ہو جائے گا اور انھیں کوئی شک نہ رہے گا۔
۱۰) گانے والی کی اجرت و قیمت حرام ہے۔
۱۱) محمد بن شاذان بن نیعم ہمارے شیعوں میں سے ہے۔
۱۲) ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اجدع ملعون ہے اور ان کے ماننے والے بھی ملعون ہیں۔ میں اور میرے باپ دادا اس سے اور اس کے باپ دادا سے ہمیشہ بے زار رہے ہیں۔
۱۳) جو ہمارا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔
۱۴) خمس ہمارے سادات شیعہ کے لئے حلال ہے۔
۱۵) جولوگ دین خدا میں شک کرتے ہیں وہ اپنے خود ذمہ دار ہیں۔
۱۶) میری غیبت کیوں واقع ہوئی ہے۔ یہ بات خدا کی مصلحت سے متعلق ہے اس کے متعلق سوال بیکار ہے۔ میرے آبا ؤ اجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں رہے ہیں لیکن خدا نے مجھے اس شکنجہ سے بچا لیا ہے جب میں ظہور کروں گا بالکل آزاد ہوں گا۔
زمانہٴ غیبت میں مجھ سے فائدہ حاصل کرنا ایسا ہی جیسے بادل میں چھپے ہوئے سورج کی۔ میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لئے امان ہوں تم لوگ غیبت اور ظہور سے متعلق سوالات کا سلسلہ بندکرو اور خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کرو کہ وہ جلد میرے ظہور کا حکم دے، اے اسحاق! تم پر اور ان لوگوں پر میرا سلام ہو جو ہدایت کی اتباع کرتے ہیں۔ (اعلام الوری ص ۲۵۸ مجالس المومنین ص۱۹۰، کشف الغمہ ص۱۴۰)۔

شیخ محم دبن محمد کے نام امام زمانہ کا مکتوب گرامی

علماء کا بیان ہے کہ حضرت امام عصر علیہ السلام نے جناب شیخ مفید ابو عبداللہ محمد بن محمد بن نعمان کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا ہے۔ جس میں انھوں نے شیخ مفید کی مدح فرمائی ہے اور بہت سے واقعات سے موصوف کو آگاہ کیا ہے ان کے مکتوب گرامی کا ترجمہ یہ ہے:
میرے نیک برادر اور لائق محب، تم پر میرا سلام ہو۔ تمہیں دینی معاملہ میں خلوص حاصل ہے اور تم ہمارے بارے میں یقین کامل رکھتے ہو۔ ہم اس خدا کی تعریف کرتے ہیں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہم درود بھیجتے ہیں حضرت محمد مصطفی اور ان کی پاک آل پر، ہماری دعا ہے کہ خدا تمہاری توفیقات دینی ہمیشہ قائم رکھے اورتمہیں نصرت حق کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھے۔ تم جو ہمارے بارے میں صدق بیانی کرتے رہتے ہو، خدا تم کو اس کا اجر عطا فرمائے۔ تم نے جو ہم سے خط و کتابت کا سلسہ جاری رکھا اور دوستوں کو فائدہ پہنچایا، وہ قابل مدح و ستائش ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا تم کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب رکھے۔ اب ذرا ٹہرجاؤ۔ اور جیسا ہم کہتے ہیں اس پرعمل کرو۔ اگرچہ ہم ظالموں کے امکانات سے دور ہیں لیکن ہمارے لئے خدا کافی ہے جس نے ہمیں ہمارے شیعہ مومنین کی بہتری کے لئے ذرائع دکھا دیے ہیں۔ جب تک دولت دنیا فاسقوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ ہم کو تمہاری خبریں پہنچتی رہیں گی اور تمہارے معاملات کے متعلق کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ ہم ان لغزشوں کو جانتے ہیں جو لوگوں سے اپنے نیک اسلاف کے خلاف ظاہر ہو رہی ہیں۔ (شاید اس سے اپنے چچا جعفر کی طرف اشارہ فرمایا ہے) انھوں نے اپنے عہدوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ تاہم ہم ان کی رعایتوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ان کے ذکر بھولنے والے ہیں اگر ایسا ہوتا تو ان پرمصیبتیں نازل ہو جاتیں اور دشمنوں کو غلبہ حاصل ہوجاتا، پس ان سے کہو کہ خدا سے ڈرو اور ہمارے امر و نہی کی حفاظت کرو اور اللہ پنے نور کا کامل کرنے والا ہے، چاہے مشرک کیسی ہی کراہت کریں۔ تقیہ کو پکڑے رہو، میں اس کی نجات کا ضامن ہوں جو خدا کی مرضی کا راستہ چلے گا۔ اس سال جمادی الاول کا مہینہ آئے گا تو اس کے واقعات سے عبرت حاصل کرنا، تمہارے لئے زمین و آسمان سے روشن آیتیں ظاہر ہوںگی۔ مسلمانوں کے گروہ حزن و قلق میں بمقام عراق پھنس جائیں گے اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے رزق میں تنگی ہو جائے گی پھر یہ ذلت و مصیبت شریروں کی ھلاکت کے بعد دور ہو جائے گی۔ ان کی ہلاکت سے نیک اور متقی لوگ خوش ہوں گے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسے کام کریں جن سے ان میں ہماری محبت زیادہ ہو۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب موت یکایک آجائے گی تو باب توبہ بند ہو جائے گا اور خدائی قہر سے نجات نہ ملے گی خدا تمہیں نیکی پر قائم رکھے، اور تم پر رحمت نازل کرے ۔“

میرے خیال میں یہ خط عہد غیبت کبریٰ کا ہے، کیونکہ شیخ مفید کی ولادت ۱۱ ذیقعدہ ۳۳۶ ہجری ہے اور وفات ۳ رمضان ۴۱۳ میں ہوئی ہے اور غیبت صغری کا اختتام ۱۵ شعبان ۳۲۹ میں ہوا ہے علامہ کبیرحضرت شہید ثالث علامہ نوراللہ شوشتری مجالس المومنین کے ص ۲۰۶ میں لکھتے ہیں کہ شیخ مفید کے مرنے کے بعد حضرت امام عصر (عج) نے تین شعر ارسال فرمائے تھے جو مرحوم کی قبرپرکندہ ہیں۔

واقعات روائے حاجات:

۱ ۔جناب محقق مدقق علامہ شیخ حسن بن یوسف بن علی بن مطہر حلی علیہ الرحمہ ایسے محدث جلیل، متعلم بے عدیل گزرے ہیں کہ علوم و فنون عقلیہ و نقلیہ میں جن کی نظیر نہ تھی۔ اپنے والد ماجد اور اپنے ماموں محقق صاحب شرائع الاسلام اور خواجہ نصیر الدین طوسی کے شاگرد تھے۔ گیارہ سال کی عمر میں مدارج اجتہاد پر ایسے فائز ہوئے کہ بڑے بڑے طلبہ کو درس دینے لگے۔

ایک مرتبہ چڑیاں لڑتی ہوئی سامنے آ گریں۔ لڑکپن کا زمانہ تھا پڑھاتے پڑھاتے اپنے سر سے عمامہ اتار کر اس پر رکھ دیا اور چڑیوں کو پکڑ لیا، شاگرد بھی ہنس پڑے۔

ایک دفعہ بچپن مین کسی غلطی پر والد کو دیکھ کر بھاگے۔ والد پیچھے دوڑے، قریب تھا کہ پکڑ لیں، فورا علامہ نے سجدہ واجبہ کی آیت پڑھ دی جس کو سن کر والد تو سجدہ کرنے لگے اور یہ آگے نکل گئے کیونکہ خود نابالغ تھے، ان پرسجدہ واجب نہ تھا۔ والد نے پھر پیچھا کیا انھوں نے پھر سجدہ کی آیت پڑھ دی والد سجدے میں پڑگئے اب سر اٹھا کر اپنے فرزند ارجمند کی اس تدبیر پر بہت خوش ہوئے اور پیار کے ساتھ پکارا، جس پرصاحبزادے واپس آگئے۔

قدرت نے ایسے علمی برکات شامل حال فرمائے تھے کہ بچپن ہی میں خود مجتہد، والد مجتہد، بھائی مجتہد، ماموں مجتہد، بھتیجے مجتہد، بھانجے مجتہد، بیٹے مجتہد، پوتے مجتہد، ستر کتابوں سے زیادہ علامہ کی تصنیفات ہیں۔ کتاب تبصرة المتعلمین ایسی مقبول ہوئی کہ جس کی ستائیس اٹھائیس شرحیں لکھیں گئیں۔

شرح تجرید ایسی مشہور کتاب ہے جس کو پڑھنا ہر عالم کا دستور ہے۔ ا س کا متن تجرید علامہ کے استاد جناب خواجہ نصیرالدین طوسی کا ہے جو بہت بڑے مشہور عالم، حکیم و فلسفی گزرے ہیں۔ درود طوسی آپ ہی کا ہے ۵۹۷ ہجری میں پیدائش ہے اور علامہ حلی کی ولادت ۶۴۸ اور رحلت ۷۲۶ھ میں ہوئی۔ نجف اشرف میں روضہٴ مبارکہ کے منارے سے متصل دفن ہیں۔

علامہ موصوف کے متعلق جناب شھید ثالث قاضی نوراللہ شوشتری اعلی اللہ مقامہ نے کتاب مجالس المومنین میں اور دیگر علماء نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک صاحب علم شخص نے جن کے علامہ بعض فنون مین شاگرد تھے۔ کوئی کتاب شیعوں کی رد مین تیار کی تھی اور اکثر لوگوں کو جلسوں میں سنایا کرتے تھے لیکن اس کی تردید و جواب کے خوف سے کسی کودیتے نہ تھے علامہ نے اس کے حاصل کرنے کی بہت کوشش کی مگرکامیابی نہ ہوسکی، یہاں تک کہ اپنی شاگردی کو استاد سے عاریة کتاب لینے کا ذریعہ بنایا جس پر استاد انکار نہ کرسکے اور مارے شرم کے کتاب دینا پڑی۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ایک رات سے زیادہ نہ رکھیں گے مگر علامہ نے اتنا وقت بھی غنیمت سمجھا اور کتاب لے کر اپنے گھر آئے تاکہ جس قدر ہو سکے اس کی نقل کرلیں، لکھنا شروع کیا لکھتے لکھتے آدھی رات ہوگئی، نیند آنے لگی اور سو گئے اور حضرت حجت علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ حضرت فرما رہے ہیں، کتاب مجھ کو دے دو اور تم سوتے رہو۔ جب اٹھے تو دیکھا کہ حضرت کے اعجاز سے پوری کتاب نقل ہو گئی ہے اور بعض حضرات نے واقعہ کی یہ صورت لکھی ہے کہ وہ کتاب اتنی ضخیم تھی کہ ایک شب تو کیا اس کو ایک شخص ایک سال سے کم میں نقل نہ کر سکتا تھا۔ جب علامہ نے لکھنا شروع کیا تو ایک صاحب اہل حجاز کی صورت میں دروازے سے داخل ہوئے، سلام کیا اور بیٹھ کر کہنے لگے کہ شیخ تم مسطر تیار کئے جاؤ اور میں لکھتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے لکھنا شروع کیا اور علامہ اوراق درست کرتے رہے۔ مگر صورت لکھنے کی یہ تھی کہ ورق کی کتابت میں اس کی درستی سے بھی زیادہ تیزی تھی۔ بس مرغ بولے تھے کہ اس وقت تک ساری کتاب مکمل ہوگئی۔

سفینة البحار میں ہے کہ اس واقعہ کے متعلق بعض مجالس میں علامہ علیہ الرحمہ نے صاف صاف فرمایا کہ وہ تشریف لانے والے حضرت حجت علیہ السلام تھے۔

۲۔ یوں تو علماء متقدمین بھی قتل کئے گئے لیکن متاخرین میں جن کا سلسہ آٹھویں قرن سے شروع ہوتا ہے جو اکابر علماء ظلم ظالمین سے شہید ہوئے، ان کو لفظ شہید سے یاد کیا جاتا ہے شھید اول جناب شیخ شمس الدین ابوعبداللہ بن محمد بن جمال الدین مکی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ لمعہ دمشقیہ آپ ہی کی کتاب ہے ایک سال شام کے قلعہ مین مقید رہے۔ للعبید میں تلوار سے قتل کیا گیا ہے، پھرسولی پر چڑھایا گیا، پھرسنگسار کیاگیا، پھرلاش کوجلادیا۔ سال ولادت ۷۶۴ ہجری اور سال شہادت ۷۸۶ھ ہے اور شھید ثانی عالم ربانی جناب زین الدین عاملی علیہ الرحمہ ہیں جو ایسے متبحر و جامع فنون عقلیہ و نقلیہ تھے کہ مشہور کتاب لمعہ آپ ہی کی ہے جس کو ہر عالم دین پڑھتا ہے گویا بعد کے تمام علماء و محققین آپ کے شاگرد ہیں اور یہ سلسہ قیامت تک رہے گا موصوف مسجدالحرام سے گرفتار ہوئے اور شہر قسطنطنیہ میں شھید کئے گئے ۹۱۱ھ مین ولادت اور۹۶۶ھ میں شہادت ہوئی۔

شیخ فاضل اجل محمد بن علی بن حسن عودی نے کتاب بغیة المرید فی الکشف عن احوال الشھید میں لکھا ہے کہ جب شھید ثانی علیہ الرحمہ نے دمشق سے مصرکا سفر کیا تھا تو راستہ میں بہت سے الطاف الہیہ و کرامات جلیلہ کا ظہور ہوتا رہا ان میں سے ایک یہ واقعہ ہے کہ جب منزل رملہ پر زیارت انبیاء کے لے تنہا اس مسجد کی طرف آئے جو جامع ابیض کے نام سے مشہور ہے تو اس کے دروازے کو قفل لگا ہوا تھا لیکن ذرا کھینچنے سے فورا کھل گیا۔ اندرجاکر نماز ودعا میں ایسے مشغول ہوئے کہ قافلہ روانہ ہوگیا۔ اس پر بہت متفکر و پریشان تھے کہ کیا کریں۔ تنہائی کا عالم اور سارا سامان ہودج پر قافلہ کے ساتھ جاچکا ہے، مجبورا پیدل روانہ ہوئے کہ شاید قافلہ مل جائے۔ مگر چلتے چلتے تھک گئے مگر قافلہ نظر نہ آیا۔ یکایک ایک سوار آتے ہوئے دکھائی دیے جنھوں نے قریب پہنچ کر فرمایا کہ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ اور سوار کرلیا۔ اس کے بعد بجلی کی طرح ایک لمحہ میں قافلہ تک پہنچ گئے اور اپنی سواری سے اتاردیا۔ شھید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے راستہ میں ہر چند تلاش کیا کہ ان صاحب کو دیکھ لوں مگر وہ نظر نہ آسکے اور اس سے پہلے بھی میں نے ان کو نہ دیکھا تھا۔

۳۔ علامہ بحرالعلوم آقا سید مہدی طباطبائی اعلی اللہ مقامہ کا یہ واقعہ جنت الماوی میں علامہ کے کارکن مولانا سلماسی سے نقل ہے کہ مجاورت مکہ معظمہ کے زمانے مین باوجودیکہ عالم مسافرت تھا، گھر بار سے بہت دور تھے لیکن بذل و عطا، دادودہش کی یہ صورت کہ کثرت مصارف کی کچھ پرواہ نہ تھی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ خرچ کی کوئی سبیل نہ رہی۔ ایک درہم بھی میرے پاس نہ تھا۔ میں نے علامہ سے عرض حال کیا جس کا کچھ جواب نہ دیا اور حسب عادت صبح طواف خانہ کعبہ کے لیے چلے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے حسب معمول حقہ حاضر کیا۔ یکایک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا جس پر وہ نہایت بے چینی کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کہ جلدی یہاں سے حقہ ہٹاؤ اور فورا خود جا کر دروازہ کھولا اور ایک شخص جلیل بہ ہیبت عرب داخل ہوئے اور بیٹھ گئے۔ بحرالعلوم ان کے سامنے انتہائی عجز و انکساری سے بیٹھے۔ کچھ باتیں ہوئیں اور پھر وہ صاحب کھڑے ہو گئے۔ بحرالعلوم نے دروازہ کھولا، ان کے ہاتھوں کابوسہ دیا اور ناقہ پر سوار کرایا۔ جب اندر تشریف لائے تو چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اسی وقت مجھ کو ایک کاغذ دیا اور فرمایا کہ یہ رقعہ اس صراف سے متعلق ہے جو کوہ صفا پر بیٹھا ہے۔ اس کو لے کر اس کے پاس جاؤ اورجو کچھ وہ دے لے آؤ۔ چنانچہ میں گیا اور وہ نوشتہ اس کو دیا۔ اس نے ہاتھ میں لے کر دیکھا، چوما اور کہا کہ بار بردار بلا کرلاؤ۔ میں جا کر چار بر بردار لے آیا۔ صراف نے وہ ریال جو پانچ قران عجمی سے بھی زیادہ ہوتا ہے اتنی مقدار میں دہے کہ چار مزدور اپنے کاندھوں پر اٹھا کر لائے اور مکان پر پہنچا دیے۔

چند روز کے بعد میں صراف سے ملنے کے لیے چلا تاکہ اس کاحال بھی دریافت کروں اوریہ بھی پوچھوں کہ وہ رقعہ کس کا تھا۔ لیکن جب میں اس مقام پر پہنچا تو نہ وہ دکان نظر آئی نہ وہ صراف دکھائی دیا میں نے لوگوں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صراف کے متعلق سوال کیا۔ سب نے کہا کہ ہم نے آج تک یہاں کسی صراف کو نہیں دیکھا۔ جس کے بعد مین سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ اسرار خدا اور الطاف امام زماں علیہ السلام ہیں۔

۴۔ صاحب کتاب دارالسلام تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز نجف اشرف میں ان صاحبان کے ذکر پر جن کو حضرت حجت علیہ السلام کی بارگاہ میں حضوری کا شرف حاصل ہوا ہے، فاضل جلیل، عادل نبیل آقا سید باقر اصفہانی نے بیان فرمایا ہے کہ حسب عادت مجاورین، ایک مرتبہ میں نے شب چہار شنبہ مسجد سہلہ میں گزاری اور دن کو بھی اس ارادہ سے وہیں رہا کہ عصر کے وقت مسجد کوفہ جاؤں گا اور پنجشنبہ کی شب وہاں رہ کر دن مین نجف اشرف واپس جاؤں گا۔ لیکن صورت یہ پیش آئی کہ کھانے کا سامان ختم ہو گیا اس زمانہ میں مسجد سہلہ کا جوار آباد نہ تھا اور کوئی روٹی بیچنے والا بھی وہاں نہ آتا تھا مجھے بھوک بہت تنگ کر رہی تھی جس سے نہایت پریشان تھا، مگرنماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ اسی اثنا مین ایک صاحب تشریف لائے اورمیرے قریب بیٹھ کر انھوں نے دسترخوان کھولا۔ اس وقت میرا دل چاہنے لگا کہ کاش یہ قیمت لے لیں اور مجھے بھی کھانے میں شریک کرلیں کہ ےیایک خود انھوں نے میری طرف دیکھ کرت واضع فرمائی، مگر میں نے شرم کی وجہ سے انکار کیا۔ لیکن ان کے اصرار سے تیار ہو گیا اورخوب پیٹ بھر کر کھایا۔ فراغت کے بعد دسترخوان لپیٹ کر وہ مسجد کے ایک حجرہ میں تشریف لے گئے جس پرمیری نظر جمی رہی اور ان کے باہر آنے کا انتظار کرتا رہا، مگر دیر ہو گئی اور وہ نہ نکلے۔ جس سے میں متفکر ہوا کہ میرے ساتھ ان کا یہ عمل اتفاقی تھا۔ میری حالت اور دل کی بات پران کو اطلاع تھی یہ سوچ کر میں اٹھا اور اسی حجرہ میں پہنجا، دیکھا تو وہ بالکل خالی ہے، وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ باوجودیکہ اس میں آنے جانے کادوسرا راستہ نہ تھا۔ تب میں سمجا کہ میرے حال پر مطلع ہوکر مجھ کو کھانا کھلانے والا سوائے حضرت حجت علیہ السلام کے کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔

۵۔ کتاب نجم ثاقب مین صالح متقی شیخ محمد طاہر نجفی کے متعلق ایک حکایت مذکور ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ شیخ برسوں مسجد کوفہ کے خادم رہے اور مع اہل و عیال کے وہیں رہائش تھی۔ بہت پرہیزگار اور متدین آدمی تھے۔ آخر میں نابینا ہو گئے تھے ان کا یہ بیان بعض علمائے متقین نے نقل کیا ہے کہ کئی سال ہوئے کہ نجف کے دو گروہوں میں جن سے میری معاش کا تعلق تھا باہم جنگ و جدال کی وجہ سے زائرین کی آمد و رفت رک گئی تھی، اہل علم کا آنا بند تھا، جس سے میں بہت پریشان تھا، زندگی تلخ ہونے لگی کیونکہ کثیرالعیال تھا۔ کچھ یتیموں کی پرورش بھی میرے ذمہ تھی فاقوں کی نوبت آگئی ایک شب کو ایسا ہوا کہ کھانے کو کچھ نہ تھا، بچے مارے بھوک کے رو رہے تھے اس وقت بہت دل تنگ ہو کر بارگاہ الٰہی مین دعا کرتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا کہ پروردگار! سوائے اس کے کچھ نہیں چاہتا کہ اپنے مولا و آقا کی صورت دےکھ لوں۔ اسی اثنا میں ایک جلیل القدر جن کے چہرے سے آثار ہیبت و جلال نمایاں ہو رہے تھے نفیس لباس پہنے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ تو کوئی بادشاہ ہیں۔ لیکن سر پر عمامہ بھی تھا جب انھوں نے نماز پڑھنی شروع کی تو روئے مبارک کا نور ایسا بڑھنے لگا کہ نظرجمانا ممکن نہ رہا۔ تب میں سمجھا کہ میرا یہ خیال غلط ہے۔ انھوں نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے طاہر! مجھے کونسا بادشاہ خیال کرتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ میرے مولا! آپ تو بادشاہوں کے بادشاہ اور تمام عالم کے سردار ہیں۔ فرمایا اے طاہر! تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے، اب کیاچاہتے ہو؟ کیا ہم روزنہ تم لوگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے اور تمہارے اعمال ہمارے سامنے پیش نہیں ہوتے۔ اس پر ان کی ہیبت و عظمت اور اس حیرت کی وجہ سے جو مجھ پر طاری تھی کچھ جواب نہ دے سکا۔ اور الحمدللہ اس وقت سے معاش کے دروازہ میرے لیے کھل گئے اور آج تک کبھی تنگی میں مبتلا نہیں ہوا۔

۶۔ فاضل جلیل سیدمحمد باقر بن سید محمد شریف حسینی اصفہانی نے کتاب نورالعیون میں اپنے استاد عالم متقی میرزا محمد تقی الماسی سے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ الماسی مولانا محمد تقی مجلسی اول کے پرپوتے تھے۔ ان کے اس لقب کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد میرزا محمد کاظم بڑے متمول تھے۔ انھوں نے ایک الماس جس کی قیمت پانچ ہزار تومان تھی بارگاہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ کیا تھا، جس سے الماسی مشہور ہوگئے ۔ ۱۱۵۹ھ میں رحلت ہوئی۔

موصوف نے بیان فرمایا کہ من جملہ سادات شولستان ایک بزرگ عالم دین نے اپنے معتمد شخص کا یہ بیان مجھ سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ بحرین کے کچھ لوگوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ ہم میں سے ہرشخص باری باری مومنین کی ایک جماعت کو کھانا کھلائے۔ چنانچہ وہ لوگ اس طرح کرتے رہے یہاں تک کہ ایک شخص کا نمبر آیا جس کے پاس پیسہ نہ تھا۔ وہ اپنی تنگدستی و بے سر و سامانی سے بہت پریشان ہوا۔

اسی فکر و غم مین اتفاقا رات کو جنگل کی طرف سے گزر رہا تھا کہ ایک صاحب اس کے سامنے آئے اور کہنے لگے کہ تم فلاں تاجر کے پاس جاؤ اور کہو کہ م ح م د بن الحسن نے کہا ہے کہ وہ بارہ دینار دے دو جو تم نے ہمارے لیے نذر کیے تھے۔ انھیں لے کر تم اپنی مہمان داری مین صرف کرو چنانچہ وہ بے چارہ اس سوداگر کے پاس گیا اور پیغام پہنچایا۔ اس نے سن کرکہا کہ کیا خود انھوں نے تم سے یہ بات کہی ہے۔ بحرینی نے جواب دیا ہاں۔ تاجر نے پوچھا کہ تم ان کو پہچانتے ہو؟ بحرینی نے کہا کہ انھیں میں تو نہیں جانتا۔ سوداگر نے کہا وہ حضرت امام صاحب الزماں علیہ السلام ہیں اور ان کی نذر کے بارہ دینار میرے پاس رکھے ہیں۔ اس کے بعد تاجرنے بحرینی کو بہت کچھ دیا اور کہا کہ چونکہ میری یہ نذر اس سرکار میں قبول ہو گئی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تبرکا آدھے دینار کا مجھ سے تبادلہ کرلو۔ بحرینی نے ایسا ہی کیا اور رقم لے کر خوش خوش اپنے گھر واپس آگیا اوراس مہمانی میں خوب صرف کیا۔
۶۔ فاضل کامل سید محمد حسینی نے کفایة المجتہد میں حسن بن حمزہ علوی طبری مرعشی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہمارے اصحاب امامیہ میں سے ایک مرد صالح نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں حج کو گیا تو سخت گرمی کا سال تھا، قافلہ سے جدا ہو گیا۔ مارے پیاس کے دم نکلا جاتا تھا یہاں تک کہ زمین پر دفعة گھوڑے کے ہنہنانے کی آوازآئی۔ آنکھیں کھولیں تو ایک خوش رو و خوش بو جوان نظر آئے۔ انھوں نے مجھ کو ایسا پانی پلایا جو برف سے زیادہ ٹھنڈا اورشہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ اس وقت میں مرنے سے بچ گیا اور میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں جو مجھ پر ایسی مرحمت فرمائی؟ فرمایا کہ میں بندوں پر حجة اللہ اور روئے زمین پربقیة اللہ ہوں۔ اورمین وہ ہوں کہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دوں گا جبکہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔ میں حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفربن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد فرمایا کہ آنکھیں بندکرو۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، فرمایا کھول دو میں نے کھول دیں تو اپنے کو قافلہ کے سامنے پایا اورحضرت نظر سے غائب ہو گئے تھے۔ صلوات اللہ علیہ۔

۷۔ عالم متبحر شیخ ابوالحسن شریف عاملی نے کتاب ضیاء العالمین میں حافظ ابو نعیم و ابوالعلاء ہمدانی سے ابن عمر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی کا خروج اس بستی سے ہوگا جس کو کرعہ کہتے ہیں ان کے سر پر ابر کا سایہ ہوگا اور منادی یہ آواز دیتا ہوگا کہ یہ مہدی خلیفہ خدا ہیں، ان کی متابعت کرو۔ اس سلسلہ میں محمد بن احمد سے ایک جماعت نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ میرے والد ہمیشہ مقام کرعہ کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا کرتے تھے کہ وہ کس طرف ہے۔ اتفاقا ایک بڑا تاجر آگیا، اس سے بھی پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے والد اکثر سفر میں رہا کرتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہم راستہ بھول گئے اور چند روز اسی پریشانی میں گزرے۔ کھانے پینے کاسامان بھی ختم ہو گیا اور مرنے کی نوبت آگئی، یکایک ایک مقام پر چمڑے کے چند خیمے نظر آئے اور ان میں سے کچھ آدمی نکل کر ہماری طرف متوجہ ہوئے جن سے ہم نے اپنی اس حالت کو بیان کیا جب ظہر کا وقت آیا تو ایک ایسے خوب صورت جوان باہر نکلے جن سے زیادہ حسین جلیل القدر و دبدبہ والا ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ سب نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب وہ سلام کہ چکے تو میرے والد نے ان کو سلام کیا اور اپنا سارا قصہ سنایا۔ اس کے بعد کئی ہم دن وہاں رہے اور ان سب کو ایسا بڑا اخلاق و نیک کردار پایا کہ کبھی کسی کو ان صفات کا سنا بھی نہ تھا۔ بالاخر ہم نے ان سے عرض کیا کہ کسی آدمی کو ہمارے ساتھ کردیجئے جو ہمیں ٹھیک راستہ پر لگا دے۔ چنانچہ انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا جس کے ہمراہ ہم وہاں سے روانہ ہوگئے اور بہت تھوڑے سے وقت میں ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں جانا چاہتے تھے، وہاں مےرے والد نے اس ہمراہی سے سوال کیا کہ تمہارے یہ سردار کون ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ حضرت مہدی م ح م د بن حسن علیہ السلام ہیں اور اس مقام کو کرعہ کہتے ہین جو یمن میں داخل ہے، اس طرف سے جو بلاد حبشہ سے متصل ہے۔ دس دن کا راستہ ہے اور ایسے بیابان میں ہے جہاں پانی کا نام نہیں۔

اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد عالم مذکور نے فرمایا ہے کہ اس روایت سے حضرت کا خروج کرعہ سے ہوگا اور اس خبر میں کہ حضرت مکہ سے ظاہر ہوں گے، کوئی مخالفت نہیں ہے کیونکہ دونوں کو ملا کر مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی قیام گاہ کرعہ سے مکہ تشریف لائیں گے اور وہاں سے ظہور امر ہوگا۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ مقام حضرت کی مستقل قیام گاہ ہے۔

ان حضرات کے نام جنھوں نے زمانہٴ غیبت صغری میں امام کو دیکھا

چار وکلائے خصوصی اور سات وکلائے عمومی کے علاوہ جن لوگوں نے حضرت امام عصر علیہ السلام کو دیکھا ہے ان کے اسماء میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
بغداد کے رہنے والوں میں سے (۱)ابوالقاسم بن رئیس (۲)ابوعبداللہ ابن فروخ (۳)مسرورالطباخ(۴۔۵) احمد و محمد پسران حسن (۶)اسحاق کاتب از نوبخت (۷)صاحب الفراٴ (۸) صاحب الصرة المختومہ (۹) ابوالقاسم بن ابی جلیس (۱۰)ابوعبداللہ الکندی (۱۱)ابوعبداللہ الجنیدی (۱۲) ہارون الفراز (۱۳) النیلی (ہمدان کے باشندوں میں سے) (۱۴) محمد بن کشمر(۱۵)و جعفربن ہمدان (دینورکے رہنے والوں میں سے) (۱۶)حسن بن ہروان (۱۷) احمدبن ہروان (ازاصفہان) (۱۸)ابن بازشالہ (ازضیمر) (۱۹)زیدان (ازقم) (۲۰)حسن بن نصر (۲۱) محمد بن محمد (۲۲) علی بن محمد بن اسحاق (۲۳)محمد بن اسحاق (۲۴)حسن بن یعقوب (ازری) (۲۵) قسم بن موسی (۲۶) فرزند قسم بن موسی (۲۷) ابن محمد بن ہارون (۲۸)صاحب الحصاقہ (۲۹)علی بن محمد (۳۰)محمد بن یعقوب کلینی (۳۱) ابوجعفرالرقاٴ (ازقزوین) (۳۲)مرواس (۳۳)علی بن احمد (از فارس) (۳۴)المجروح (ازشہزور) (۳۵)ابن الجمال (ازقدس) (۳۶)مجروح (ازمرو) (۳۷)صاحب الالف دینار (۳۸)صاحب المال والرقة البیضاء (۳۹)ابوثابت (ازنیشاپور) (۴۰)محمدبن شعیب بن صالح (ازیمن) (۴۱)فضل بن برید (۴۲)حسن بن فضل (۴۳)جعفری (۴۴)ابن الاعجمی (۴۵) شمشاطی (ازمصر) (۴۶)صاحب المولودین (۴۷)صاحب المال (۴۸)ابورحاٴ (ازنصیبین) (۴۹)ابومحمدابن الوجنا(ازاہواز) (۵۰) الحصینی (عایة المقصود جلد۱ ص۱۲۱)۔

Back to top button