حکایات و روایاتکتب اسلامی

جھوٹی قسم کا انجام

بنی عباس کے ابتدائی دور میں محمد بن عبداللہ بن اما م حسن ؑ اور ابراہیم بن عبداللہ بن امام حسنؑ نے غاصب حکومت کے خلاف خروج کیا اور شہید ہوگئے، یہ دونوں بھائی تھے،ان کا بھائی یحییٰ بن عبداللہ گرفتاری کے خوف سے ویلم بھاگ گیا۔
ویلم کے لوگوں نے اس سید زادے کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور پورے علاقے میں ان کا چرچا ہوگیا۔
مخبروں نے ہارون رشید کو اطلاع دی کہ اس علاقہ میں سید یحییٰ بن عبداللہ بن امام حسنؑ کا اثرورسوخ بڑھتا جارہا ہے،ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں حکومت کےلیے خطرہ بن جائے لہٰذا کوئی ناخوشگوار اور صورتحال پیش آنے سے پہلے ہی اس کی سرکوبی کرنی چاہیے۔
ہارون نے پچاس ہزار کا لشکر فضل بن یحییٰ کی سرکردگی میں دیلم بھیجا،جب یہ لشکر دیلم کے قریب پہنچا تو سید زادے نے کہا کہ میں جنگ کر کے اس علاقے کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہتا،میں جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنائوں گا۔
آخر کار سید یحییٰ بن عبداللہ اور فضل بن یحییٰ کے درمیان مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ اگر ہارون امان نامہ لکھ دے جس میں علماء فقہا اور بزرگن بنی ہاشم کی گواہی موجود ہوتو سید یحییٰ اپنے آپ کو فضل بن یحییٰ کے حوالے کردیں گے۔
چند دن بعد ہارون کی طرف سے امان نامہ آیا،اس کے ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی تھے،امان نامہ ملنے کے بعد سید یحییٰ نے اپنے آپ کو فضل بن یحییٰ کے حوالے کردیا۔
ہارون نے سید یحییٰ کا پرتپاک استقبال کیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ہارون نے عہد شکنی کرتے ہوئے یحییٰ بن عبداللہ کو قید کردیا۔
ہارون چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سید یحییٰ کو قتل کر ڈالے لیکن اسے کوئی معقول بہانہ کرتے ہوئے یحییٰ بن عبداللہ کو قید کردیا۔

ہارون چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سید یحییٰ کو قتل کر ڈالے لیکن اسے کوئی معقول بہانہ نہیں مل رہا تھا۔
ایک دن زبیر کی نسل سے ایک شخص نے ہارون کے پاس چغلی کھائی کہ سید یحییٰ قید ہونے سے پہلے خفیہ طور پر لوگوں کو اپنی خلافت کی دعوت دیتے تھے اور لوگوںسے اپنے لیے بیعت لیتے تھے۔
ہارون کو تو ایک بہانہ چاہیے تھا،اس نے سید یحییٰ کو جیل سے دربار میں بلایا اور کہا کہ مجھےمعلوم ہوا ہے کہ تم اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی خلافت کی خفیہ دعوت دیتے تھے۔
سید یحییٰ نے اس سے انکار کیا تو ہارون نے اس شخص کو بلا بھیجا،اس چغل خور نے ان کے سامنے اپنے الزامات دہرائے۔
سید یحییٰ نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو قسم کھائے،اس نے کہا:مجھے اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے میں تمام کائنات ہے،میں سچ بول رہا ہوں۔
سید یحییٰ نے فرمایا:نہیں اس طرح قسم مت کھائو کیونکہ جب کوئی شخص ایسی قسم کھائے جس میں اللہ رب العزت کی تعریف ہو تو اللہ تعالیٰ عذاب کو ٹال دیتا ہے،اگر تو سچا ہے تو اس طرح قسم کھا کر اپنی سچائی ثابت کر:’’میں اللہ کی قوت و نصرت سے اپنے آپ کو الگ کر کے اپنی قوت اور مدد اللہ کے حوالے کر کے کہتا ہوں کہ میرا بیان سچا ہے‘‘،قسم کے عجیب الفاظ سن کر وہ شخص پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کیسی قسم ہے جو تم مجھ سے اٹھوانا چاہتے ہو؟ہارون نے بگڑ کر کہا:اگر تو سچا ہے تو تجھے یہی قسم کھانا ہوگی،مجبوراً اس نے قسم کے وہی الفاظ دہرائے جو سید یحییٰ چاہتے تھے۔
ابھی قسم کھا کر وہ دربار سے باہر نکلا ہی تھا کہ اس کا پائوں اس بری طرح پھسلا کہ وہ سر کے بل زمین پر گر گیا،اس کے سر میں شدید چوٹ آئی اور وہ تھوڑی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مرگیا،اس کی میت قبرستان لائی گئی اور قبر پر جتنی بھی مٹی ڈالی گئی قبر پر ہونے میں نہ آئی،مجبور ہو کر اس کی قبر پر چھت بنائی گئی اور یوں اس کا نجس بدن زیر خاک ہوا۔

(حوالہ)

(الفخری ابن طقطقی)

Related Articles

Back to top button