عقیدے میں استقامت ضروری ہے
’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فِی قَوْلُہُ تَعَالٰی‘‘ ’’وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا‘‘ قَالَ:’’ يَعْنِي لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى وَلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْأَوْصِيَاءِ مِنْ وُلْدِهِ ع وَ قَبِلُوا طَاعَتَهُمْ فِي أَمْرِهِمْ وَ نَهْيِهِمْ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقاً يَقُولُ لَأَشْرَبْنَا قُلُوبَهُمُ الْإِيمَانَ وَ الطَّرِيقَةُ هِيَ الْإِيمَانُ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ وَ الْأَوْصِيَاءِ‘‘
اصول کافی میں ہے کہ امام محمد تقیؑ نے سورہ مبارکہ جن کی آیت ۱۶ ’’اگر وہ طریقہ یعنی راستے پر ثابت قدم رہے تو ہم انہیں خوشگوار پانی پلائیں گے‘‘،کی تفسیر میں فرمایا:اس سے مراد یہ ہے کہ اگر لوگ امیرالمومنین امام علیؑ اور ان کی اولاد میں سے ہونے والے ان کے جانشینوں کی ولایت(کے راستے) پر ثابت قدم رہیں اور جو حکم دیں اس کو مانیں اور جس سے منع کریں اس سے رک جائیں تو ہم ان کے دلوں کو آب ایمان سے سیراب کریں گے اور اس آیت میں لفظ’’طریقہ‘‘سے مراد امام علیؑ اور ان کے اوصیاء کی ولایت ہے۔
’’ عن محمد بن مسلم قال سألت أبا عبد الله ( عليه السلام ) عن قول الله عز وجل إِنَّ الَّذينَ قالوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ استَقاموا‘‘ ’’فَقَالَ اَبُوْعبداللہ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اسْتَقَامُوا عَلَى الاَیِمَۃُوَاحِدًا بَعْد وَاحِد تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ المَلائِكَةُ أَلّا تَخافوا وَلا تَحزَنوا وَأَبشِروا بِالجَنَّةِ الَّتي كُنتُم توعَدونَ‘‘
اصول کافی میں محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفرصادقؑسے ’’ إِنَّ الَّذينَ قالوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ استَقاموا‘‘ بے شک جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور وہ اس عقیدے پر جمے رہے کی تفسیر پوچھی توآپ ؑنے فرمایا:’’اس سے مراد وہ افراد ہیں جو یکے بعد دیگرے ائمہ طاہرین ؑ کی امام پر ثابت قدم رہے ہوں،انہی لوگوں سے فرشتے ملاقات کریں گے اور انہیں کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھائو،ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
(حوالہ جات)
(سورہ جن:آیت۱۶)
(سورہ حم ٰ سجدہ:آیت۳۰)
(اصول کافی ج۱،ص۲۲۰)