ہدفِ خلقت
سوال۵۴:۔ہدف و غرضِ خلقت وپیدائش کیا ہے ؟
ہم سب کو باطنی طور پر اس کا سامنا ہے کہ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ یہ سوال دو باتوں کو ذکر کرنے سے حل ہوتا ہے۔
اوّل : یہ کہ عملِ خلقت سے اللہ کی غرض و ہدف کیا ہے؟
دوّم: ہمارے خلق ہونے کا مقصد کیا ہے؟
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال صحیح نہیں کیونکہ خدا خود ہدف ہے نہ کہ ہدف رکھتا ہے، ہر کوئی اس لیے کام کرتا ہے تاکہ اپنے نقص کو اس کے ذریعے برطرف کرے، محتاج ہے اور چاہتا ہے کہ اس احتیاج کو برطرف کرے تاکہ کمال تک پہنچ سکے، اگر خود کمالِ مطلق یعنی خدا کوئی کام انجام دینا چاہے تو یہ سوال صحیح نہیں کہ کمال مطلق نے کس لیے یہ کام انجام دیا ہے، ہر فاعل کام کرتا ہے تاکہ کمال تک پہنچے، خود کمالِ مطلق کس وجہ سے کام انجام دیتا ہے؟ یہ سوال صحیح نہیں بلکہ کمالِ مطلق کے بارے میں اس طرح کہا جاتا ہے کہ کیونکہ وہ کمال مطلق اور خیر محض ہے اور کمال کے شعبوں میں سے ایک سخاوت ہے، ایسی ذات سے سوائے خیر، احسان و بخشش کے کچھ اورصادر نہیں ہوتا اور وہ کائنات کو وجود عطا کرتا ہے، کائنات کو وجود عطا کرنا بہترین بخشش و سخاوت ہے۔
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ انسان ایسا موجود ہے جو فکر بھی کرتا ہے اور کام بھی، اس بنا پر ضروری ہے کہ انسان کے کام و فکر کے لیے ہدف کو مد نظر رکھا جائے، فکر کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے، خلقتِ انسان کا ہدف یہ ہے کہ وہ جہان کو الٰہی نظر سے دیکھے اور پہچانے۔
اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ وَأَنَّ اللَّہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عِلْما(۱)
خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور انہی کے برابر زمین کو بھی ان میں خدا کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اور بے شک خدا اپنے علم سے ہر چیز پر حاوی ہے۔
یہ مجموعہ خلق کیا گیا ہے تاکہ تم الٰہی نظر سے جہان کو دیکھو اور جان لو کہ یہ سب ایک ہی مبدا ء کی مخلوق ہے، مبدأ بنامِ خدا، جو عین قدرت ہے اور بکل شئیٍ قدیرہے، عین علم ہے اور بکل شئیٍ علیم ہے، کوئی چیز اس کے علم و قدرت سے خارج نہیں۔
ایسے مبداء پر اعتقاد رکھنا جس کا علم و قدرت لا محدود ہے، ہمارے لیے مربی و کارساز ہے، اس طرح کہ چونکہ وہ ہر چیز کا عالم ہے، پس ہم مواظب ہیں کہ آلودہ نہ ہوں اور کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم مواظب ہیں کہ اپنے کاموں کو اس کے سامنے رکھیں اور صرف اسی سے مدد طلب کریں۔
البتہ بعض موجودات خدا کے نزدیک تر ہیں اور عالی ترین کمال رکھتی ہیں اور ان سے توسل کیا جا سکتا ہے اور ان سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے، شفاعت و توسل نہ تو توحید کے مخالف ہے اور نہ ہی شرک کے مطابق بلکہ حقیقی توحید کے ساتھ سازگار و موافق ہے۔
ہم سب جب پیاسے ہوتے ہیں توپانی پیتے ہیں، جب روشنی کے محتاج ہوتے ہیں، بتو سورج کی مدد حاصل کرتے ہیں، باوجودیکہ پانی اور سورج کو خدا نے خلق کیا ہے لیکن درحقیقت نور حاصل کرنے کے لیے سورج اور پیاس بجھانے کے لیے پانی سے متوسل ہوتے ہیں، ہم سورج سے توسل کرتے ہیں نہ یہ کہ سورج کو مبداء نور سمجھتے ہیں، یہ عین توحید ہے۔
جب ہم اہلبیتؑ ِعصمت و طہارت جو کہ آبِ حیات و آبِ کوثرہیں اور ہر سورج سے بلند مرتبہ ہیں، سے توسل کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ نہیں کہ ان کو مبداء وجود سمجھتے ہیں بلکہ اسی طرح جیسے زندہ رہنے کے لیے پانی پیتے ہیں، اس خاندان کی زندگی کے آب حیات سے استفادہ کرتے ہیں تاکہ عالم ہوں، مذکورہ آیت میں فرمایا: انسان کی پیدائش کا ایک ہدف یہ ہے کہ وہ ایسے علم کا عالم ہو جو اس کے لیے مفید ہو، وہ علم جو اسے خدا کے علاوہ کسی اور کے سپرد نہ کرے، نہ خود پر بھروسہ کرے اور نہ غیر اللہ پر، یہ علمی حوالے سے انسان کی خلقت کا ہدف ہے۔
عملی حصّہ میں سورہ ذاریات کے آخری حصّہ میں آیا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ(۲)
اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
یعنی جن و انسان کی خلقت اس لیے ہے کہ وہ خدا پرست ہوں اور غیرِ خدا کی عبادت نہ کریں، کیونکہ ممکن نہیں کہ انسان دین نہ رکھتا ہو، ہر شخص بالآخرکوئی نہ کوئی دین رکھتا ہے، یعنی کسی قانون کا احترام کرتا ہے، کسی کی بات کو مانتا ہے، اگر وہ خدا ہو تو اس شخص کا دین اسلام ہے کہ :
إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ(۳)
(سچا) دین تو خدا کے نزدیک یقیناً(بس یہی) اسلام ہے۔
وہ مسلّماً احکامِ الٰہی کی اطاعت کرتا ہے اور خدا نے جن چیزوں سے روکا ہے، ان سے پرہیز کرتا ہے اور خدا کے ارشادات سے مدد حاصل کرتا ہے، اگر اس نے راستے کو طے نہ کیا اور اپنے نفس کو خدا کی جگہ پر بٹھایا تو خواہشات پرست ہو گا۔
یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں، میں جو چاہوں کروں، یعنی میری خواہشات ہی میرا خدا ہیں، میں جہاں چاہوں جائوں، جو چاہوں کروں، یعنی میرا دین میری خواہش کے مطابق تنظیم پاتا ہے، یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خداوندمتعال فرماتا ہے:
أَفرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہ(۴)
کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔
ایسا شخص خواہش پرست ہے اور اگر اس کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو تو اس کی آہ کسی جگہ نہیں پہنچتی۔
نتوان زدن بہ تیر ھوایی نشانہ را۔
ہوا میں چلایا ہوا تیر نشانے پر نہیں لگتا۔
اس بناپر کوئی بھی دین کے بغیر نہیں یا خدا پرست ہے یا ہوا و ہوس پرست، لہٰذا قرآنِ کریم فرماتا ہے: انسان کو چاہیے کہ عملی طور پر خدا پرست ہو اور فکری طور پر خدا بین ہو، ان دونوں کا مجموعہ خلقتِ انسان کے علمی و عملی ہدف کی تشریح کرتا ہے، ابتداء بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ یہ سوال کہ خدا کا خلقت سے مقصد کیا تھا، صحیح نہیں، کیوں ؟ کیونکہ اگر فاعل ناقص ہو حتماً وہ ہدف رکھتا ہے کہ اس ہدف تک رسائی کے لیے کام انجام دیتا ہے، اس فاعل اور اس ہدف کے درمیان کام واسطہ ہے تاکہ فاعل اپنے کمال کو پا لے، لیکن اگر وہ فاعل لا محدود اور کمالِ محض ہو تو نقص نہیں رکھتا کہ کام کرے تاکہ اس کام کے ذریعے مقصد حاصل کر سکے، سورہ ابراہیم میں فرمایا:
إِن تَکْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً فَإِنَّ اللّہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۵)
اگر تم اور (تمہارے ساتھ) جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب (مل کر بھی خدا کی) ناشکری کرو تو خدا کو ذرا بھی پرواہ نہیں کیونکہ وہ تو (بالکل) بے نیاز ہے۔
اگر روئے زمین پر تمام لوگ کافر ہوں تو خدا پر کوئی نقص وارد نہیںہوتا اور خدا کے لیے کوئی نقصان پیدا نہیں ہوتا، بعض لوگ اس لیے کام کرتے ہیں کہ فائدہ حاصل کریں، مثلاً کوئی گھر بناتا ہے تاکہ اس میں سکونت اختیار کرے یا گھر بناتا ہے تاکہ اس کو بیچ کر نفع حاصل کرے، یہاں پر گھر بنانے کا مقصد، گھر کے مالک کا نفع اٹھانا ہے، کبھی اس عمارت کو بنانے کا مقصد نفع حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ سخاوت کرنا ہوتا ہے، مثلاًجس شخص کی مالی حالت راہ حلال سے صحیح ہے، گھر رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود طلباء کے لیے ہاسٹل بناتا ہے، وہ خود فائدہ نہیں اٹھاتا، لیکن بخشش و سخاوت کرتا ہے، اگر یہ کام نہ کرے تو ناقص ہے، سخاوت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ سخاوت تک رسائی حاصل کرے جو کہ ایک کمال ہے اس لئے ہاسٹل بناتا ہے۔
پس بعض لوگ ناقص ہیں کام انجام دیتے ہیں تاکہ فائدہ حاصل کریں، بعض ناقص ہیں وہ کوئی کام انجام دیتے ہیں تاکہ سخاوت کریں، خداوندِمتعال نہ قسمِ اوّل سے ہے اور نہ قسمِ دوم سے، نہ اس لیے کائنات کو بنایا کہ نفع حاصل کرے اور نہ اس لیے جہان کو بنایا کہ سخاوت کرے کہ اگر نہ کرے تو معاذ اللہ ناقص ہے، وہ تمام عالمین سے غنی ہے۔
جو ہستی محض اور کمالِ خالص ہے، کوئی کمی نہیں رکھتا کہ کام انجام دے کہ اس کمی کو پورا کرے بلکہ چونکہ عین کمال ہے، جودو سخاوت اس سے ٹپکتی ہے، وہ خود ہدف ہے اور عینِ ہدف اور اس بات سے منزہ ہے کہ ہدف رکھتا ہو۔
(حوالہ جات)
(۱)سورہ طلاق آیت ۱۲
(۲)۔ سورہ ذاریات آیت ۵۶
(۳)سورہ آل عمران آیت ۱۹
(۴) سورہ فرقان آیت ۴۳
(۵) سورہ ابراہیم آیت۸