بابرکت درہم
رسول اکرمﷺ کا کُرتا پرانا ہوگیا تھا،ایک شخص نے بارہ درہم آپؐ کی خدمت میں نذر کئے،آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ اس رقم سے میرے لیے ایک کُرتا خرید لاؤ۔
حضرت علیؑ بازار گئے اور بارہ درہم کا کپڑا خرید کر لائے،جب رسول اکرمﷺنے کپڑا دیکھا تو فرمایا:یاعلیؑ!یہ تو بہت قیمتی کپڑا ہے،اگر دکاندار رقم واپس کرنے پر آمادہ ہوتو یہ کپڑا اسے واپس کر کے رقم لےلاؤ۔
حضرت علیؑ دکاندار کے پاس گئے اور فرمایا:میرے آقا کو یہ کپڑا پسند نہیں آیا،تم اسے واپس لے لو اور رقم لوٹا دو۔
دکاندار نے کپڑا رکھ لیا اور رقم لوٹا دی،حضرت علیؑ وہ رقم لے کر رسول اکرمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،رسول اکرمﷺنے وہ رقم لے لی اور خود بہ نفس نفیس حضرت علیؑ کو ساتھ لے کر بازار گئے،راستے میں ایک کنیز کو روتے ہوئے دیکھا، آپؐنے رونے کا سبب پوچھا تو اس نےبتایا کہ میرے مالک نے مجھے چار درہم دے کر بازار سے سودالانے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہ رقم مجھ سے گم ہوگئی ہے۔
آپؐ نے چار درہم اس کنیز کو دیے اور بازار سے چار درہم کا کپڑاخریدا،راستے میں ایک مفلس شخص آپ ؐکےپاس آیا اور کہا:یارسول اللہؐ!میرے پاس پہننے کے لیے کپڑا نہیں ہے،آپؐنے وہ کپڑا اسے دے دیا،پھر آپ ؐنے چار درہم کا ایک اور کپڑا خریدا۔
جب بازار سے واپس ہوئےتو اس کنیز کو اسی جگہ پھر روتے ہوئے دیکھا،آپؐ نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے عرض کیا:یا رسول اللہؐ!مجھے گھر سے نکلے ہوئے کافی وقت گزرچکا ہے،اب مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ گھر والے مجھے سزا دیں گے۔
آپؐ نے فرمایا:تم ہمارے ساتھ چلو اور ہمیں اپنے مالک کا گھر بتائو،ہم تمہاری سفارش کریں گے۔
کنیز آپؐ کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے مالک کے گھر میں داخل ہوگئی۔
رسول اکرمﷺاس دروازے پر تشریف لائے اور سلام کیا لیکن گھر والوں نے سلام کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ ؐ نے انہیں تین بار سلام کیا۔
تیسری دفعہ سلام سن کر گھر کا مالک باہر آیا،آپؐ نے اس سے سلام کا جواب نہ دینے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا:یا رسول اللہؐ!در اصل میں یہ چاہتا تھا کہ آپؐ زیادہ سے زیادہ ہم پر سلام کریں کیونکہ آپؐ جتنی بار سلام کریں گے اللہ کی رحمتوں کا ہم پر زیادہ نزول ہوگا۔
آپؐ نے کنیز کی سفارش کی،اس شخص نے کہا:یا رسول اللہؐ!جب آپؐ اس کے سفارشی بن کر آئے ہیں تو میں نے اسے راہ خدا میں آزاد کردیا چنانچہ کنیز کو آزادی مل گئی۔
یہ دیکھ کر رسول اکرمﷺ نے فرمایا:میں نے ان بارہ درہموں سے زیادہ برکت درہم نہیں دیکھے کیونکہ ان کے ذریعے دو آدمیوں نے اپنا جسم ڈھانپا اور ایک کنیز کو آزادی نصیب ہوئی۔
(حوالہ)
(حیات القلوب ج۲،ص۱۱۶)