دعا قبول ہونے کی شرط
امام جعفرصادقؑ سےروایت ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک عابد تین سال تک مسلسل اولاد کے لیے دعا کرتا رہا لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی۔
ایک دن اس نے گڑ گڑاتے ہوئے کہا:’’اَبَعیدُ انا منك تَسْمَعنی اَمْ قَریب فلا تجیبنی‘‘پروردگار!کیا میں تجھ سے دور ہوں اس لیے تجھے میری آواز سنائی نہیں دیتی یا میں تو قریب ہوں لیکن تو مجھے جواب نہیں دیتا۔
خواب میں اسے بتایا گیا کہ تم تین سال سے اللہ کو اس زبان سے پکار رہے ہو جو بری باتیں کہنے کی عادی ہے اور تم آلودہ دل اور جھوٹی نیت کے ساتھ رب کو پکارتے ہو، خدا کا خوف کرو اور پہلے اپنا دل پاک اور اپنی نیت صاف کرو۔
امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ عابد نے ان ہدایات پر عمل کیا تو اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے بیٹا عطا کیا۔ امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:ایک دن حضرت موسیٰ ؑ اپنے پیروکاروں کو نصیحت فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپؑ کی نصیحت سے متاثر ہو کر اپنا گریبان چاک گیا۔
اللہ تعالی ٰ نے حضرت موسیٰؑ کو وحی فرمائی!اے موسیٰؑ اس سے کہہ دو’’لا تشق قمیصک و لکن اشرح لی عن قلبک‘‘تم اپنی قمیص مت پھاڑو،اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اپنا دل میرے لیے کھول دو۔
امام جعفر صادقؑ نے آخر میں فرمایا:حضرت موسیٰؑ کہیں سے گزر ے تو انہوں نے اپنے ایک پیروکار کو سجدے میں دیکھا،آپؑ اپنا کام نمٹا کر جب واپس آرہے تھے تو وہ شخص ابھی تک سجدے میں پڑا تھا،حضرت موسیٰؑ نے اس سے فرمایا: اگر تیری ضرورت پوری کرنا میرے بس میں ہوتا میں اسے ضرور پوری کرتا۔
اس وقت حضرت موسیٰؑ کو آواز قدرت آئی: اے موسیٰؑ!اس سے کہہ دو کہ اگر یہ اتنے سجدے کرے کہ سجدے میں اس کی گردن ٹوٹ جائے تو بھی میں اس کا سجدہ قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ اپنے دل کو پاک نہ کرے اور جسے میں پسند کرتا ہوں یہ بھی اسے پسند کرے اور جسے میں ناپسند کرتا ہوں یہ بھی اسے ناپسند کرے۔
(حوالہ)
(اصول کافی ج۲،ص۳۲۵تا۳۲۶)
(روضہ کافی ص۱۲۸،۱۲۹)