زندگی کے اہداف
سوال۴:زند گی کا مقصد کیا ہے؟ اور کیسے پتہ چلے گا کہ ہم نے درست طور پر ہدف کو معین کیاہے؟
اس سوال کے جوا ب کے لئے ابتدا ئی طور پر چند ابتدائی باتوںکی طرف توجہ ضروری ہے۔
اوّل : ہد ف کا مطلب
ہدف یعنی کسی بھی کا م ،حکم اور راستے پر چلنے کے لئے ایک ایسا نقطہ جہا ںپروہ ختم ہوتاہے،اس کی تعریف پر غوراوردقت ِ نظرہمیں بہت سی خطا ؤں سے محفو ظ رکھتی ہے، طول تا ریخ انسانی میںخطا کر نے والوں نے ہد ف کے صحیح مفہو م پر غور نہیں کیا یا اس کا ادرا ک نہیں کیا، لہٰذا غلطی سے انھوں نے ایسی چیزوں کو پو ری زندگی کا ہد ف اور اعلیٰ ترین مقصد بنا دیا جو انسانی دنیا کی حیات شما ر ہو تے یا اس کا لازمہ قرار پاتے تھے حیا ت انسانی کے بعض مر احل میں صرف اس مرحلے کے لئے آئیڈیل شمار ہو سکتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی زندگی میں خسا رے یا روحانی شکستوں سے دو چار ہوئے ہیں،اس مقام پرایسے لوگوں کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے لذتوں اور شہوتوںسے استفادہ کو ہی زندگی کا سب سے بڑا ہدف سمجھا،بہرحال یہ تصور صحیح نہیں تھا کیونکہ وہ چیزجو زندگی کاجزء ہوزندگی کا مقصدنہیں بن سکتی،ایسے افراد کے سامنے زندگی (حیاتِ دنیوی)کے اختتام کے بعد ہدف تک رسائی کی کو ئی تصویر موجود نہیں۔
مثال کے طورپروہ لو گ جو علم کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنا اپنی زندگی کا ہدف سمجھتے ہیں ممکن ہے کہ مطلوب تک پہنچنے میں نا کا می کی صو رت میں احساسِ شکست کی وجہ سے زندگی کے بارے میں منفی اورما یوس طرز فکر اپنا لیں اور کامیابی کی صورت میں بھی دنیوی زندگی کے اختتام کے بعد ایک بڑے ہد ف تک پہنچنا ان کے لئے کوئی معنی نہ رکھتاہو،اس بنا پرزندگی اور اس کے مقصد کو ایک دوسرے سے جداہونا چاہیے اور جو کچھ زند گی کی حدوں میں داخل ہے اسے زندگی کا ہدف نہیں بننا چاہیے،بہرصورت ہدف زندگی کے بارے میںسوال کے جواب میں ضروری ہے کہ ہم طبعی زند گی سے بلند تر مقام پر کھڑے ہوں تاکہ اس کو طبعی زندگی اور اس کی صفا ت میں تلا ش نہ کریں۔(۱)
دوم :ہدف کا درست ہونا
واضح رہے کہ علما ء اور دانش وروں نے زند گی کے لئے مختلف اہدا ف کی تصویر کشی کی ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ تما م نظریا ت و اہد اف صحیح تھے اور دوسر ے کو صحیح طور پر سمجھائے گئے ہیں،ان میں سے بہت سے اہدا ف میں موجو د تضا د ہما رے دعو یٰ کو در ست قرار دیتاہے۔
مثال کے طور پر ایک بیما ر فوری طورپرایک خا ص دواکا محتاج ہے اورآپ جا نتے ہیں کہ یہ دوا صرف ایک میڈیکل سٹو رمیں دستیا ب ہے لیکن آپ اس جگہ کو نہیں جانتے تو آپ کو شد ت سے احسا س ہو گا کہ اس سٹو ر کا نا م اور پتہ جا ننا آپ کے لئے کتنا ضروری ہے۔ جتنا یہ معلومات ضرور ی ہیں اتنا ہی اس روڈکی شناخت اور اس سٹور تک پہنچنے کا طریقہ جاننا ضروری اور اہم ہے،اگر میڈیکل سٹو ر کا نام ایڈریس اور اس کی طرف جا نے کی کیفیت آپ کو غلط بتا ئی جا ئے تو بیما رکے لئے ناقابل ِتلافی نقصا ن کا با عث ہو گا ۔
پہلے قدم میں ہدف زندگی کوپانے کی کاو ش اوراس تک پہنچنے کے را ستے میں ہمارے قدم خطرے کی ایک گھنٹی سے ٹکراتے ہیں،جو ہمیں مزیدہوشیارکرنے ورغوروفکر
کرنے پر مجبو ر کر نے کے لئے سود مند ہے۔
خطرے کی یہ گھنٹی ہمیں بتاتی ہے کہ تم صر ف ایک ہی مرتبہ اس راستے پر چلوگے اور ایک ہی بارزند گی کا تجربہ کر و گے،یہ انتہائی اہم خطرے کی گھنٹی ہمیں اس بات پر آما دہ کرتی ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیش ِ نظر اتنی ہی دقت اور تو جہ کے ساتھ کو شش کریں اور مطمئن ہوں کہ ہم نے جو را ستہ اختیا رکیا ہے وہ بالکل درست ہے۔
بنابرایں ہدف زندگی کی معرفت اتنا بھی آسا ن کا م نہیں جو ہم یا ہما رے جیسے لو گ جوخودپہلی اورآخری باراس را ستے سے گزررہے ہیں،اس کا اتنی آسانی سے ادراک کرسکیں، ضروری ہے کہ غیب سے کو ئی ہا تھ نمو دا رہو اور اپنی انگلی کے اشارہ سے ہما ری سمت اورہماری منزل و ہدف کی نشاندہی کرے۔
خوش قسمتی سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دست غیب ظاہرہوچکا ہے اور ہدف کے تعیّن اوراس تک پہنچنے کے راستے کی نشاندہی کاحقیقی کام کرچکاہے،خداوند ِمتعال جو تمام کائنات پر احاطہ رکھتا ہے اور اس کے آغا ز سے لے کر انجا م تک تما م را زو ں سے آشنا ہے انسان کو ہد فِ زند گی اور اس تک پہنچنے کے راستے نہا یت خو بصو رت اندا زمیں مرحلہ بہ مرحلہ سکھاتاہے، اس نے آیا ت قرآن میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ تما م کا ئنا ت اور با لخصوص انسان عالم بالاکی طرف واپس پلٹیں گے اور تما م امو ر کا اختتا م اللہ پر ہو گا اور انتہا اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور اسی کی ملکیت ہے۔
وَإِلَی اللَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ(۲)
تمام امور کے انجام کی بازگشت اسی کی طرف ہے
وَإِلَی اللّہِ تُرْجَعُ الأُمُور(۳)
تمام امورکی بازگشت اسی کی طرف ہوگی
اس بنیادپر انسان کے لئے اسلام نے جس ہد ف اورانجام کی تصویرکشی کی ہے وہ صر ف خدا ہے اوربس اوریہ ہدف ہے جس سے بالاتر کوئی ہدف ناقابل ِ تصور ہے، انسان اللہ کی طرف حر کت میں ہے اور حقیقت میں تما م عالم اس کی طرف حرکت اورسفرکی حا لت میں ہے ہم، چاہیں یا نہ چاہیں،جا نیں یا نا جا نیں اس ہد ف کی طرف گا مزن اورمحوسفر ہیں۔
یہ ہدف زندگی اورعالم ما دی ما ورا ء بلکہ بلند تر اوربرترعوالم پربھی محیط ہے، اس بنا پردنیا میں انسان کے زندگی گذارنے کا مقصد اللہ کی طرف حرکت اوراس کی طرف بازگشت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ہد ف تک پہنچنے کی کیفیت اور اس با ز گشت کے طریقے کو واضح کیا ہے اور اس کے بیان کی ذمہ داری انبیاء کے کا ندھوں پررکھی ہے،درحقیقت ان کی پیروی اور ان کی ہدایات وتعلیمات پرعمل کے سائے میں انسان حقیقت انسانیت اورقربِ خداوندی کوپاسکتا ہے۔
فَاتَّقُوا اللَّہَ یَا أُوْلِیْ الْأَلْبَابِ الَّذِیْنَ آمَنُوا قَدْ أَنزَلَ اللَّہُ إِلَیْْکُمْ ذِکْراً oرَّسُولاً یَتْلُو عَلَیْْکُمْ آیَاتِ اللَّہِ مُبَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّور(۴)
پس ایما ن لانے والے او ر عقل مند اللہ سے ڈرو کہ اس نے تم پر اپنے ذکر کو نا ز ل کیا ہے وہ رسول جو اللہ کی واضح آیا ت کی تلاوت کر تا ہے تاکہ ایمان اور نیک عمل کر نے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ۔
یَاأَیُّہَاالنَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِداً وَمُبَشِّراًوَنَذِیْراً o وَدَاعِیْاً إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجاً مُّنِیْرا(۵)
اے ہما رے پیغمبرؐ ہم نے آپ کو گو اہ، بشا ر ت دینے والا اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورخدا کی طرف اس کی اجا زت سے دعوت دینے والا اورر وشن چراغ بنا کر بھیجا ہے
یہ عبا رت واضح کرتی ہے کہ انبیاء کی بعثت کامقصد اللہ تعالیٰ کی طرف دعو ت دینا ہے اوروہ ہدف زندگی اور منزلِ مقصو د تک پہنچنے کے راستے کو انسان کے لئے تا بنا ک ورو شن چراغ کی طرح نما یاں کرتے ہیں۔
چون رسید اند ر سبا این نو ر شر ق
روح ھا ی مر دہ جملہ پرزدند
یک دگر را مژدہ وہ می دا دنہ ھا ن
زان ندا دین ھا ھمی گر دند گبز
از سلیما ن آن نفس چون نفح صور
غلغلی افتا د در بلقیس و خلق
مر د گا ن ازگو رتن سر بر زدند
تک ندا ی میر سد از آسمان
مردو بر گ دل ھمی گر دند سبز
مرد گان را وا رہا نید از قبو ر(۶)
یہ مشرق کی روشنی جب سبا میں پہنچی
لوگوں اور بلقیس کے درمیان ایک شور مچ گیا
سب مردہ روحیں اڑنے لگیں
مردوں نے جسم کی قبر سے سر ابھارا
ایک دوسرے کو خو شخبری دیتاتھا کہ ہاں
یہ صدا آسمانوں سے آ رہی ہے
اس آواز سے سب دین قوی ہو جاتے ہیں
دل کی شاخ اور پتے سبز ہو جا تے ہیں
حضرت سلیما ن کے اس سانس نے صور پھونکنے کی طرح
مردوں کو قبروں سے رہائی دے دی
قرآنِ مجیدزندگی میںانسان کے اصلی وحقیقی ہدف تک پہنچنے کے لئے ایمان اورعمل صالح کو دو بنیا دی ار کا ن اور زادِراہ قرار دیتا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْن
oإِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْْرُ مَمْنُون(۷)
ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پید ا کیا پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیاعلا وہ ان لوگوں کے جو ایمان لا ئے اورانہوں نے نیک اعمال انجام دیے تو ان کے لئے نہ ختم ہو نے والا اجر ہے
إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۸)
بے شک انسان خسارے میں ہے علا وہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اورایک دوسرے کو حق اورصبرکی وصیت ونصیحت کی ۔
اس بنا پرآیات قرآنی کی روشنی میں چند با تیں واضح ہو تی ہیں:
اولاً: زندگی کا عالی تر ین ہدف اس دنیا کی چندروزہ زندگی کی حدوں سے سے خارج ہے اور یہ عا لی ترین مقصد اس کے اندر نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں پو شیدہ ہے ۔
ثانیاً: زندگی کا مقصدو اصل حقیقت یعنی خدا وند متعال تک پہنچنا اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔
ثالثاً: اللہ تعالیٰ نے اسی ہد ف تک رسا ئی کی کیفیت کو ہما رے سامنے انبیاء الٰہی کے ذریعے واضح کیا ہے اور اس نے عقل کے ساتھ سا تھ جوکہ باطنی رہبرہے اورمقصدزندگی تک ہماری رسا ئی کے لئے کچھ اصولوں کی طرف ہما ری رہنما ئی کی ہے،انبیا ء وآسمانی کتابوں کو بھی اسی راستے کی فروعات اور جزئیات کی رہنما ئی کے لئے بھیجا ہے۔
رابعاً: زندگی کے حقیقی مقصد تک رسا ئی کے لئے ایمان اور عمل صا لح دو انتہائی اہم اوراصلی رکن قرار دئیے گئے ہیں۔
ان تما م با توں سے واضح ہو تاہے کہ طالب علم ، کاریگر ، مزدور، ڈاکٹر، صوفی، عارف،آرٹسٹ،استاد،عورت،مردسب کے لئے یعنی انسان کیلئے ہد ف زندگی یکساں ہے البتہ ہرایک اپنے ایما ن اور عمل صا لح کے مطابق زند گی کے حقیقی مقصد کو پا سکتا ہے۔
زندگی کے ہد ف پر اس نظر کے مطابق ایما ن اور عمل صالح کے حصول کی کوشش اگرچہ سخت ہے لیکن بہت ہی لذت بخش اور سرورآور ہے،خدا کی طرف رخ کرنا بہت ہی اطمینان بخش انس اور لطف سے بھر پو ر ہے ا ور وصال کی اس منز ل تک نہ پہنچ پا نا جا نسوز اور روح فرسا ہے،عبدا لرحمان جامی مولانا جلال الدین رومی کے درج ذیل دو اشعار:
بشنواز نی چون حکایت می کند
کزنیستان تامراببریدہ اند
وز جاتی ھا شکا یت می کند
در نفیرم مردو زن نا پدہ اند
بانسری سے سن کیا بیان کرتی ہے
اور جدائیوں کی شکایت کرتی ہے
کہ جب سے مجھے ہنسلی سے کاٹا گیا ہے
میر نالہ سے مر دو عورت سب روتے ہیں
کی تشریح میں کہتے ہیں:
جند روزی کہ پیش از روز و شب
متحد بو دیم با شاہ وجود
بو دا المیا نی جھا ن بی چند وچون
نی بہ لو ح علمشا ن نقش ثبو ت
نی از ھق ممتا ز ونی ازیک دیگر
نا گہا نی در جنبش آمد بحر جو د
امتیاز علمی آمد درمیان
واجب وممکن زھم ممتا ز شدہ
بعد از آں یک مو ج دیگر زو محیط
پیش آن کر زمرہ اہل حق است
موج دیگر نیز در کار آمد ہ
جم ھم گر دید طو را بعد طور
نو ع آخر آدم است و آدمی
بر ادتب سربگوںن کر دہ عیو ر
گرنگر و دبا ز مسکین زین سفر
فا رغ از اندوہ و آزا ر از طرب
کلم غیرت بہ کلی محو بو د
زا متیا ز علمی و عینی مصون
نی ز فیض خوان ہستی خوردہ قوت
غرقہ در یا ی وحدت سر بہ سر
جملہ را دو خو د ز خو د بی خو د نمود
بی نشا نی را نشا ن ھا شدعیان
رسم وآسنی دویی آغاز شد
سوئی ساحل آمد و رو اج بسیط
نا م آن بر زخ مثال مطلق است
جسم وجسمانی پیدیدار آمدہ
تاب نو عے آفرینش افتا دہ دور
گشتہ محروم ازمقام محرمی
پایہ پا یہ زاصل خو یش افتا د دو
نسبت روزی ھیچ کس مھجور ترر
نی کہ آغا ز حکا یت می کند
زین جد ائی ھا شکایت می کند
کتنا خو بصورت دن تھا، رو ز و شب سے پہلے جب ہم بادشاہ وجود کے ساتھ متحد تھے
عالم کی تما م عظیم اوربڑی چیزیں بے چون و چر ا تھیں
نہ ان کی لوح علم پر ثبوت کا کوئی نقش تھا
نہ وہ حق سے ممتا ز اور جدا تھے اور نہ ہی ایک دوسرے سے
اچانک ’’جو د‘‘ کا سمندر حر کت اور جو ش میں آیا
پھر ان موجود ات کے ما بین علمی امتیا ز اورجد ا ئی پیدا ہوئی
ہم غم و اند وہ اور لذت و وجد سب سے فا رغ تھے،
جہاں غیریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا
اپنے علمی اور عینی امتیازا ت اور خصوصیات سے محفو ظ تھے
نہ وہ ہستی کے دسترخوان کے فیض سے کوئی قوت اور خوراک پاتی تھیں
وہ سب کے سب وحدت کے سمندر میں غوطہ زن تھے
تما م کا ئنات کو اس نے اپنے وجود میں اس طرح سمو لیا کہ وہ اپنے آپ سے بے گا نہ ہو گئے
پھر واجب الوجود اور ممکن الوجو د ایک دوسرے سے جدا ہوئے
اس کے بعد ایک اور موج نے پیدا ہو کر طلاطم بر پا کر دیا
پھر ایک اور موج وجود میں آئی جسکے نتیجے میں
جسم اور روح کے مابین جامع برزخ پیدا ہوا
اس کے ہاں جو بھی اہل حق کے زمرہ میں ہے
ایک اورموج بھی وجو د میں آگئی
جسم نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہئیت اور شکل بدلی
اس کی آخری نو ع انسان اور آدم ہے
یہ انسان انسانی کما لا ت میں بلندیوں کی جا نب سفر کی بجا ئے پستیوں کی جا نب گر رہا ہے
یہ مسکین اگر اس سفر سے وا پس نہ لو ٹے ،
بانسری جو اپنی کہانی بیان کر رہی ہے
گمنا م اور بے نشا نوں کے نا م و نشا ن عیان ہو نے لگے
پھر ارو اح بسیط ساحل کی طرف آنے لگیں
دوئی اور جدا ئی کاقانو ن اور رسم وجو دمیں آیا
اس بر زخ کا نا م مثال مطلق ہے
جس سے جسم اور جسما نیت نے جنم لیا
یہا ں تک کہ جسم اپنے اخری دور اور مر حلے میں داخل ہو ا
جو مقام محرم (اللہ کا ر ازوں ) سے اب محروم ہو چکا ہے
اور مرحلہ بہ مرحلہ اپنی اصل اور حقیقت سے دو روہو تا چلا جا رہا ہے
تواس سے زیادہ کوئی بھی بد نصیب اور محروم نہیں کہلا سکتا،
اسی جدائی کی شکا یت کرتی ہے ،
اس امید کے سا تھ کہ اللہ تعالیٰ حقیقت کی جستجو کرنے والے انسانوں کو ہدف زندگی کی معرفت اور اس تک رسا ئی میںمدد عطا فر ما ئے ۔اور ہمیں اہل معرفت اور شراب وصل پینے والوں میںسے قرار دے۔(۹)
(حوالہ جات)
(۱)۔ دیکھئے: تکا پوگر اندیشہ ہا ، عبد اللہ نصری ، زند گی آثا ر و اندیشہ ہای استا د تقی جعفری ص ۲۲۰
(۲) سورہ لقمان، آیت۲۲
(۳) سورہ آل عمران، آیت۱۰۹
(۴)۔ سورہ طلاق، آیت۱۰، ۱۱
(۵)۔ سورہ احزاب، آیت۴۵،۴۶
(۶)۔مثنوی معنوی دفتر۴،ابیات ۸۳۹۔۸۴۳
(۷) سورہ والتین، آیت۴،۵
(۸) سورہ عصرآیت ۲،۳
(۹)مندر جہ بالابحثوں کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتب کامطالعہ مفید ہے ،۔الف : انسان از آغاز تا انجا م ، علامہ سید محمدحسین طبا طبا ئی ، الزہر ا پبلیکیشنر ، تہر ان ،ب : مقالات ، استاد ، شجا عی ، سر وش ، تہران ج ۱ ، ج: فلسفہ و ہد ف زندگی ، محمد تقی جعفری، د: زندگی ایدہ آل و ایدہ آل زند گی ، محمد تقی جعفری ، ز : ہد ف زندگی ،استا د مرتضیٰ مطہری