میانہ روی
امیرالمومنین حضرت علیؑ اپنے صحابی علاء بن زیاد حارثی کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے،آپؑ نے اس کے وسیع و عریض گھر کو دیکھا تو فرمایا:دنیا میں اتنا وسیع گھر لے کر تم کیا کرو گے جبکہ آخرت میں ایسے گھر کی شدید ضرورت ہے؟اگر تم چاہو کہ آخرت میں تمہیں وسیع گھر ملے تو پھر یہاں مہمان نوازی اور صلہ رحمی کرتے رہو اور دوسروں کے حقوق ادا کرتے رہو۔
علاء نے اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرتے ہوئے کہا:یا امیرالمومنینؑ! وہ رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا ہے۔
جب عاصم آپ ؑکے سامنے آیا تو آپؑ نے فرمایا: اے اپنی جان کے دشمن! تجھے شیطان نے گمراہ کیا ہے،تجھے اپنے بیوی بچوں پر رحم نہیں آتا اور کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ نے جو چیزیں حلال کی ہیں اگر تو انہیں استعمال کرے گا تو وہ ناراض ہوگا؟
عاصم کہنے لگا:یا امیرالمومنینؑ!تو پھر آپ ؑنے موٹا لباس کیوں پہنا ہوا ہے،آپ ؑ بھی تو سادہ اور معمولی غذا کھاتے ہیں؟
امیرالمومنینؑ نے فرمایا:میں تجھ جیسا نہیں ہوں،اللہ نے حکمرانوں پر لازم کیا ہے کہ وہ غریب لوگوں کی سی زندگی بسر کریں تاکہ ان کی حالت دیکھ کر غریبوں کو تسلی ہو۔
دیکھئے!امیرالمومنینؑ نے دونوں بھائیوں کو ان کے مراتب کے لحاظ سے ہدایت فرمائی،دولت مند بھائی کو مالی حقوق ادا کرنے کا حکم دیا اور اسے خدا کی حلال چیزوں کو استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہی اسلام اور قرآن کا حکم ہے،اسلام نہ تو ہمارے لیے عیش و عشرت ہی سے بھر پور زندگی کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی رہبانیت کی خشک و بے مزہ زندگی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے،اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔
(حوالہ)
(بحارالانوار ج۱۵،ص۵۳)