روٹی کمانا بھی عبادت ہے
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ ایمان کے ساتھ حصے ہیں،کسی کے پاس ایک حصہ ،کسی کے پاس دو اور کسی کے پاس تین،اسی طرح کسی کے پاس سات حصے ہیں، اس لیے ایک حصے والے پر دو حصے والے کا بوجھ نہیں لادنا چاہیے اور جس کے پاس دو حصے ہیں اس پر تین حصوں والے کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
آپ ؑنے اس مسئلے کی وضاحت کیلئے یہ مثال دی: ایک مسلمان کا ہمسایہ عیسائی تھا،اس نے عیسائی کو اسلام کی دعوت دی اور اسلام کی خصوصیات اس کے سامنے بیان کیں،اس کی تبلیغ سے عیسائی مسلمان ہوگیا۔
دوسرے دن مسلمان پو َ پھٹنے سے پہلے نو مسلم عیسائی کے گھر پہنچ گیا اور دستک دی، عیسائی نے دروازہ کھولااور پوچھا:کیا بات ہے؟
مسلمان نے کہاکہ نماز شب کا وقت ہوگیا ہے چلو وضو کرو اور مسجد چلیں۔
نو مسلم اس کے ساتھ مسجد میں آگیا،اس مسلمان نے نماز شب پڑھی،اس کی دیکھا دیکھی نو مسلم نے بھی نماز شب پڑھی،پھر نماز فجر کا وقت ہوا،دونوں نے نماز فجر پڑھی اور سورج نکلنے تک اس نے نو مسلم کو مسجد میں بٹھائے رکھا۔
سورج نکلتے ہی نو مسلم اٹھنے لگا تو مسلمان نے کہا کہ بھائی دن چھوٹے ہیں گھر جا کر کیا کرو گے؟بیٹھو کچھ دیر بعد ظہر کا وقت ہوجائے گا،اس وقت تک تم نوافل پڑھتے رہو۔
نومسلم بے چارہ ظہر تک مسجد میں بیٹھا رہا اور ظہر پڑھ کر نکلنے لگا تو اس مسلمان نے کہا:بھائی ظہر اور عصر کے درمیان وقت ہی کتنا ہے،وہ بے چارہ بیٹھ گیا اور عصر کی نماز بھی ادا کی،اسی طرح نماز عشاء تک اس مسلمان نے نو مسلم کو مسجد میں بٹھائے رکھا،
نماز عشاء کے بعد دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
دوسری صبح مسلمان نے پھر نو مسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ بھائی آئو نماز پڑھنے چلیں۔
وہ بولا: بھائی!میں غریب آدمی ہوں،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،مجھے روٹی بھی کمانی ہے،تم کسی بیکار شخص کو جا کر مسلمان بنائو،میں عیسائی ہی بھلا ہوں۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:اگر وہ شخص نو مسلم پر زیادہ بوجھ نہ لادتا تو وہ اسلام سے دلبرداشتہ نہ ہوتا۔