حکایات و روایاتکتب اسلامی

امربالمعروف ونہی عن المنکر

(۱)’’قال النبي ﷺ:
كيف بكم إذا فسدت نساؤكم وفسق شبابكم ولم تأمروا بالمعروف ولم تنهوا عن المنكر، فقيل له: ويكون ذلك يا رسول الله؟ فقال نعم وشر من ذلك كيف بكم إذا أمرتم بالمنكر ونهيتم عن المعروف، فقيل له: يا رسول الله ويكون ذلك؟ قال: نعم، وشر من ذلك، كيف بكم إذا رأيتم المعروف منكرا والمنكر معروفا‘‘
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اس وقت تمہاری حالت کیا ہوگی جب تمہاری عورتیں خراب ہوجائیں گی،تمہارے جوان بگڑ جائیں گے اور تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دو گے،آپ سے پوچھا گیا: یارسول اللہؐ!کیا ایسا بھی ہوگا؟آپؐ نے فرمایا:اس سے بھی بدتر ہوگا، اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے منع کرو گے،آپ سے پوچھا گیا:یا رسول اللہ ؐ!کیا ایسا بھی ہوگا؟آپؐ نے فرمایا:بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگا،اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم نیکی کو برائی اور برائی کونیکی سمجھنے لگو گے۔
(۲)’’خطب أمير المؤمنينؑ فحمد الله وأثنى عليه وقال:
أما بعد فإنه إنما هلك من كان قبلكم حيث ما عملوا من المعاصي ولم ينههم الربانيون والأحبار عن ذلك وإنهم لما تمادوا في المعاصي ولم ينههم الربانيون والأحبار عن ذلك نزلت بهم العقوبات فأمروا بالمعروف وانهوا عن المنكر واعلموا أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لم يقربا أجلا ولم يقطعا رزقا، إن الأمر ينزل من السماء إلى الأرض كقطر المطر إلى كل نفس بما قدر الله لها من زيادة أو نقصان‘‘
حضرت امام علیؑ نے اپنے خطبے میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے،اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتے تھے اور خدا پر ست علماء انہیں منع بھی نہیں کرتے تھے،جب وہ مسلسل خدا کی نافرمانیاں کرتے رہے اور علماء نے بھی آنکھیں بند کئے رکھیں تو ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل ہوئے، پھر انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا شروع کردیا،لوگو!(امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو اور یہ بھی)جان رکھو کہ امر ونہی سے نہ تو موت قریب ہوتی ہے اور نہ ہی رزق میں کمی آتی ہے اور تقدیر الٰہی سے جو کچھ مقرر کیا گیا ہے وہ بارش کے قطروں کی طرح آسمان سےزمین پر نازل ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس کا مقدر بغیر کسی کمی بیشی کے مل کر ہی رہتا ہے۔ (۳)’’جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ؑ قَالَ:
يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يُتَّبَعُ فِيهِمْ قَوْمٌ مُرَاءُونَ يَتَقَرَّءُونَ وَ يَتَنَسَّكُونَ حُدَثَاءُ سُفَهَاءُ لَا يُوجِبُونَ أَمْراً بِمَعْرُوفٍ وَ لَا نَهْياً عَنْ مُنْكَرٍ إِلَّا إِذَا أَمِنُوا الضَّرَرَ يَطْلُبُونَ لِأَنْفُسِهِمُ الرُّخَصَ وَ الْمَعَاذِيرَ يَتَّبِعُونَ زَلَّاتِ الْعُلَمَاءِ وَ فَسَادَ عَمَلِهِمْ يُقْبِلُونَ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الصِّيَامِ وَ مَا لَا يَكْلِمُهُمْ فِي نَفْسٍ وَ لَا مَالٍ وَ لَوْ أَضَرَّتِ الصَّلَاةُ بِسَائِرِ مَا يَعْمَلُونَ بِأَمْوَالِهِمْ وَ أَبْدَانِهِمْ لَرَفَضُوهَا كَمَا رَفَضُوا أَسْمَى الْفَرَائِضِ وَ أَشْرَفَهَا إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَرِيضَةٌ عَظِيمَةٌ بِهَا تُقَامُ‏ الْفَرَائِضُ هُنَالِكَ يَتِمُّ غَضَبُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِمْ فَيَعُمُّهُمْ بِعِقَابِهِ فَيُهْلَكُ الْأَبْرَارُ فِي دَارِ الْفُجَّارِ وَ الصِّغَارُ فِي دَارِ الْكِبَارِ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ سَبِيلُ الْأَنْبِيَاءِ وَ مِنْهَاجُ الصُّلَحَاءِ فَرِيضَةٌ عَظِيمَةٌ بِهَا تُقَامُ الْفَرَائِضُ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْرُ فَأَنْكِرُوا بِقُلُوبِكُمْ وَ الْفِظُوا بِأَلْسِنَتِكُمْ وَ صُكُّوا بِهَا جِبَاهَهُمْ وَ لَا تَخَافُوا فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ فَإِنِ اتَّعَظُوا وَ إِلَى الْحَقِّ رَجَعُوا فَلَا سَبِيلَ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ هُنَالِكَ فَجَاهِدُوهُمْ بِأَبْدَانِكُمْ وَ أَبْغِضُوهُمْ بِقُلُوبِكُمْ غَيْرَ طَالِبِينَ سُلْطَاناً وَ لَا بَاغِينَ مَالًا وَ لَا مُرِيدِينَ بِظُلْمٍ ظَفَراً حَتَّى يَفِيئُوا إِلَى أَمْرِ اللَّهِ وَ يَمْضُوا عَلَى طَاعَتِهِ ‘‘
جابر جعفی بیان کرتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
آخری زمانے میں مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی پیروی کی جائے گی جو ریاکار ہوں گے اور عابد و زاہد اور درویش بنے ہوئے ہوں گے،وہ احمق قسم کے محدث ہوں گے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو فرض نہیں سمجھیں گے،ہاں جب انہیں نقصان کا ندیشہ ہوگا تو امر و نہی کو واجب قرار دیں گے اور وہ ہمیشہ اس فکر میں رہیں گے کہ کسی نہ کسی بہانے دینی احکام سے راہ فرار اختیار کرسکیں اور اس کے لیے کوئی عذر تلاش کرسکیں،وہ لوگ ہمیشہ اہل علم کی غلطیاں تلاش کریں گے اورا ہل علم کے غلط کاموں کی پیروی کریں گے،یہ لوگ نماز ،روزہ،اور دوسری عبادات بجا لائیں گے جن سے ان کے جان و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے،اگر انہیں یہ علم ہوجائے کہ نماز روزہ ان کے جان و مال کے لیے نقصان دہ ہیں تو وہ انہیں بھی ویسے ہی چھوڑ دیں جیسے انہوں نے اہم ترین واجبات کو چھوڑا ہے،پھر فرمایا:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاءؑ کا راسہ اور صالحین کا شیوہ ہے،یہ ایک عظیم فرض ہے،اسی سے باقی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے اور راستے پر امن رہتے ہیں اور اسی سے کسب حلال اور مظلوموں کی داد رسی وابستہ ہے ،اسی سے زمین آباد ہے اور اسی طریقےسے دشمنوں سے انتقام لیا جاسکتا ہے،دین و دنیا کے تمام امور کا استحکام امربالمعروف و نہی عن المنکر سے حاصل ہوتا ہے،مجرموں کے سامنے دل و زبان سے ان کی مخالفت کرو اور ان کی پیشانیوں کو رگڑ دو اور اس کے لیے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائو، اگر وہ لوگ نصیحت قبول کرلیں اور حق کی طرف رجوع کرلیں تو پھر ان کے لیے ملامت نہیں ہے،’’ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں نا حق زیادتیاں کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ تم ان کے خلاف اپنے جسم سے جہاد کرو اور اپنے دلوں میں ان سے نفرت کرو اور تمہاری نظر ریاست طلبی اور دولت حاصل کرنے پر نہ ہو اور تمہیں چاہیے کہ ظلم کو کامیابی کا ذریعہ نہ بنائو،تم انصاف کے ذریعے ان سے جہاد کرو یہاں تک کہ سرکش لوگ خدا کے فرمان کی طرف لوٹ آئیں اور خدا کی اطاعت پر آمادہ ہوجائیں۔
(۴)’’عن عبد الله محمد، عن أبي عبد الله ؑأن رجلا من خثعم جاء إلى رسول الله ﷺ فقال: يا رسول الله أخبرني ما أفضل الإسلام، قال: الإيمان بالله، قال: ثم ماذا قال: ثم صلة الرحم، قال: ثم ماذا؟ قال: الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، قال: فقال الرجل: فأي الأعمال أبغض إلى الله؟ قال: الشرك بالله، قال: ثم ماذا؟ قال قطيعة الرحم، قال، ثم ماذا؟ قال: الأمر بالمنكر والنهي عن المعروف‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ قبیلہ خشعم کا ایک آدمی رسول خداﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ ؐ!اسلام میں بہترین عمل کون سا ہے؟آپؐ نے فرمایا:اللہ پر ایمان لانا، اس نے پوچھا: اس کے بعد؟آپؐ نے فرمایا:صلہ رحمی،اس نے پوچھا:اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا:امربالمعروف اور نہی عن المنکر،پھر اس نے پوچھا:اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل ناپسند ہے؟آپؐنے فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک کرنا،اس نے پوچھا:اس کے بعد؟آپ ؐ نےفرمایا:برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا۔
(۵)’’عن مسعدۃ بن صدقۃ قال: سمعت أبا عبد الله ؑ يقول: وسئل عن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر أواجب هو على الأمة جميعا؟ فقال:
لا فقيل له ولم؟ قال: إنما هو على القوي المطاع، العالم بالمعروف من المنكر، لا على الضعيف الذي لا يهتدي سبيلا إلى أي من أي يقول من الحق إلى الباطل والدليل على ذلك كتاب الله عز وجل قوله: (ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر) فهذا خاص غير عام، كما قال الله عز وجل: (ومن قوم موسى أمة يهدون بالحق وبه يعدلون) ولم يقل: على أمة موسى ولا على كل قومه وهم يومئذ أمم مختلفة والأمة واحدة فصاعدا كما قال الله عز وجل: (إن إبراهيم كان أمة قانتا لله ) يقول: مطيعا لله عز وجل وليس على من يعلم ذلك في هذه الهدنة من حرج إذا كان لا قوة له ولا عذر ولا طاعة‘‘
مسعدہ بن صدقہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا یہ پوری امت پر واجب ہے؟
آپؑ نے فرمایا:نہیں،پوچھا گیا:کیوں؟آپؑ نے فرمایا:امربالمعروف اور نہی عن المنکر اس پر واجب ہے جس کے پاس طاقت ہو،لوگ اس کی اطاعت کرتے ہوں اور وہ خود بھی نیکی اور برائی کو سمجھتا ہو اورجس کے پاس طاقت اور علم نہ ہو اس پر واجب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ نیکی اور برائی کی تمیز خود نہ رکھتا ہو تو لوگوں کو راہ راست سے ہٹا کر باطل کی طرف لے جائےگا اور برائی کی تمیز خود نہ رکھتا ہو تو لوگوں کو راہ راست سے ہٹا کر باطل کی طرف لے جائے گا اور اس بات کی دلیل کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر فرد پر واجب نہیں ہے،یہ ارشاد الٰہی ہے:’’وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ۔۔۔‘‘تم میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو نیکی کی دعوت دے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔(سورہ آل عمران:آیت۱۰۴)یہ خاص ہے عام نہیں،جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:’’وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّۃٌ يَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ يَعْدِلُوْنَ‘‘ موسیٰؑ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا(سورہ اعراف:آیت۱۵۹)اس آیت میں خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ کی پوری قوم ہدایت کرتی تھی جبکہ اس وقت ان کی امت میں مختلف امتیں تھیں، بعض اوقات لفظ’’امت‘‘فرد واحد اور اس سے زیادہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:’’اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ كَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِيْفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ‘
بے شک ابراہیمؑ اپنی ذات کے حوالے سے ایک پوری امت تھے(سور ہ نحل: آیت۱۲۰)اور ہم اس وقت ظالم حکمرانوں کے زیر تسلط ہیں،ہمیں کوئی طاقت حاصل نہیں ہے،اسی وجہ سے ہم پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں۔
کافی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے شیخ بہائوالدین عاملی اپنی کتاب اربعین میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امر ونہی کے لیے دوشرائط کا ہونا ضروری ہے اور فقہاء امر و نہی کی فرضیت کے لیے چار شرائط بیان کرتے ہیں:
(۱)وہ شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرسکتا ہے جو خود اسے بخوبی جانتا ہو۔
(۲)ایسے گنہگار کو امرو نہی نہیں کرنی چاہیے جو گناہوں پر اصرار کرتا ہو اور اس کے کردار سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ اپنے گناہوں پر پشیمان نہیں۔
(۳)تبلیغ کی تاثیر کا بھی امکان ہو۔
(۴)امر و نہی کی وجہ سے مالی اور جانی نقصان کا خطرہ نہ ہو۔
مذکورہ بالاحدیث میں پہلی اور تیسری شرط کی طرف اشارہ ہے لیکن واضح رہے کہ یہ
شرائط اس امر و نہی سے متعلق ہیں جس کا تعلق ہاتھ اور زبان سے ہو لیکن دل سے برائی کو برا سمجھنے کے لیے شرائط نہیں ہیں۔
(حوالہ جات)
(کافی ج۵،ص۵۹)
(کافی ج۵،ص۵۷)
(کافی ج۵،ص۵۶)
(کافی ج۵،ص۵۸)
(کافی ج۵ص۵۹)
(اربعین ص۱۰۶)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button