مشروعیّت اور مقبولیت
سوال۲۸:حکومتوں کی قانونی حیثیت کا سر چشمہ کیا ہے ؟ مختلف مکاتب کے نقطہ نظرسے اس پربحث کریں اور ان کا اسلام اور شیعہ نظریے سے موازنہ کریں ۔
اسلام اور دیگر مکاتب فکر میں مشروعیّت (قانونی حیثیت )پربحث کرنے سے پہلے مشروعیّت کی تعریف کو جاننا ضروری ہے اس کے بعد اس کے منبع اورسرچشمہ کے حوالے سے مختلف آراء کو بیان کرنے کے بعد ان کا موازنہ کیا جائے ۔
مشروعیّت کی تعریف
مشروعیّت سیاست کی اصطلاح (Legitimacy) کے مساوی ہے،یہ لفظ (Legitimate)جوکہ صفت ہے،سے مشتق کیا گیا ہے اور اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ۔ مثال کے طورپرمندرجہ ذیل تعریفوں کو دیکھنا مفید ہے ۔
۱۔حکمرانی کرنے اور اطاعت کروانے کی عقلی توجیہ۔(۱)
۲۔حکمران کے طاقت کے استعمال کی عقلی وجہ۔(۲)
۳۔قانونی ہونا یا قانون کے مطابق ہونا۔(۳)
۴۔رعایاکا قائدین اور حکومت کے بارے میں واجب اور ضروری احکامات صادر کرنے کی قابلیت اورصلاحیت رکھنے کا عقیدہ۔(۴)
۵۔کسی خاص گروہ یاشخص کے سیاسی مقام کو عوام کی طرف سے قبولیت پردلالت کرنے والا اصول (۵)
مشروعیّت کے عناصر ترکیبی
مشروعیّت کے دو بنیادی رکن ہیں :
۱۔اس بات کی وضاحت کہ کسی شخص یاگروہ کے پاس کون ساجوازہے جس کی بنیادپروہ دوسروں پرحکومت کرنے اورضروری اورواجب احکامات صادرکرنے کا حق رکھتا ہے ۔
۲۔حکومت کے احکامات پرعمل کرناعوام پرلازم ہے،کون سی چیزاس بات کی توجیہ کرتی ہے ؟
اس کی وضاحت یوں ہے کہ حکومت، نافذ العمل احکامات اور فرامین کا چولی دامن کاساتھ ہے اور’’حق حکومت ‘‘اور ’’اطاعت کا لازم ہونا ‘‘ کے درمیان ایک قسم کا لازمی منطقی رابطہ موجود ہے جسے اصطلاح میں تضایف کہتے ہیں،لہٰذا مشروعیّت کے متعلق ہر نظریہ دونوں پہلوئوں کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ان کی معقول توجہیہ پیش کرے ۔
’’مشروعیت ‘‘کا لفظ سیاسیت سے مربوط مختلف علوم میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
الف:فلسفہ،کلام اورفقہ سیاسی میں مشروعیّت کا مطلب’’حقانیت ‘‘ہے اور غصب (Usurpation) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے جسے اصطلاح میں اسے اصولی مشروعیّت (Normative Legitimacy) کہتے ہیں ۔
مذکورہ علوم میں اصول و قواعد مرتب کرنے والے سیاست اور حکومت کے شعبے میں کیاکرناچاہیے اورکیانہیں،اُسے واضح کرتے ہیں،اس بناء پران علوم میں ’’نظریہ مشروعیّت‘‘واضح کرتا ہے کہ کون شخص یاکون سے افراد،کن اصول و ضوابط کے تحت اور کس بنیادپر لوگوں پرحکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں اورعوام کوکیوں حکمرانوں کی پیروی اور اطاعت کرنا چاہیے؟
ب :سیاسی عمرانیات ( جو کہ ایک بیانیہ (Descriptive) علم شمار ہوتاہے اقتصادی ، ثقافتی اور معاشرتی عوامل کے ذریعے،سیاسی طرزِعمل،رویوں اور اداروں کی تشریح اور وضاحت کرنے کی کوشش کرتاہے(۶)اوراقداراور قابل قدر باتوں سے قطع نظروہ سیاسی ڈھانچے کاجائزہ لیتا ہے)میں زیادہ تر مشروعیّت ، مقبولیت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے، اس نظرسے مشروعیّت اورمقبولیت کے درمیان کیارابطہ ہے،کے سوال کی گنجائش نہیں رہتی،کیونکہ اسکے مطابق مقبولیت اورمشروعیّت ایک ہی معنی کیلئے دولفظ ہیں،لہٰذااس مسئلہ پرقواعدکی روسے بحث کی جائے۔
نظریہ مشروعیّت کی ضروری باتیں
۱۔مشروعیّت کا معیارکلی اور سب کو شامل ہونا چاہیے اور معاشرے کے تمام افراد پر حاکمیت کی توجیہ بیان کرے نہ یہ کہ معاشرے کے بعض طبقات پرتوحکومت کرنے کی وجوہات بیان کرے لیکن بعض دوسرے طبقات پر حکمرانی کی وجہ بیان کرنے سے قاصرہو۔
۲۔مشروعیّت کے معیاراور منبع سے مرادایسا سرچشمہ ہے جوذاتی طورپراس خصوصیت کا حامل ہواورکسی اورسبب اورمنبع سے قرض لینے والا نہ ہو،بصورت ِدیگر مشروعیّت حقیقت میں پہلے سب اورسرچشمے کی ہو گی اور قرض لینے والے کی مشروعیّت مجازی اورفرعی ہوگی۔
۳۔مشروعیّت کے معیار اور ضابطے کو جامع اور مشمول ِعام ہونا چاہیے اور سیاسی طاقتوں کے اقتدار کے حوالے سے تمام بنیادی سوالوں کا اُسے جواب دینا چاہیے، باالفاظ دیگر جب نظریہ مشروعیّت دو عناصر لازم ہونا اور’’اطاعت ‘‘کی تشریح اور وجہ بیان کرتا ہے تو اسے تین بنیادی سوالوں کا جواب بھی دینا چاہیے ۔
پہلا:کس کی اور کس خصوصیت کے ساتھ اس کی حکومت مشروع اور اس کی اطاعت لازمی ہے ؟
دوسرے الفاظ میں نظریہ مشروعیّت کو واضح کرنا چاہیے کہ کیا حکمران شخص یا گروہ کو خاص صفات کا حامل ہونا چاہیے یا مشروعیّت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو پھر وہ خصوصیات اور صفات کون سی ہیں ؟
دوسرا:مشروعیّت اور اقتدار کے حصول کے طریقوں میں کیا رابطہ اور تعلق ہے ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ کیاحکومت کی مشروعیّت کسی خاص طریقے سے اقتدار حاصل کرنے میں منحصرہے یااقتدارکے حصول کی کیفیت کیساتھ مشروعیّت کوکوئی واسطہ نہیں ہے ؟
تیسرا:کیا طاقت اوراقتدارکے استعمال کا سیاسی مشروعیّت میں عمل دخل ہے ؟یعنی مذکورہ شرائط کے علاوہ مشروعیّت کا حکمرانی کے طرزِعمل اور قوت کے استعمال کے ساتھ کیارشتہ اورتعلق ہے ؟
مشروعیّت کے منابع و مآخذ
سیاسی علوم کے ماہرین اور تجربہ کاروں نے مشروعیّت کے منابع کے حوالے سے مختلف آراء پیش کی ہیں ، ما کس وبر نے مشروعیّت کے منابع کی تین اقسام بتائی ہیں :۔
۱۔روایتی ۲۔ذاتی خصوصیات ، انفرادی عقلمندی ۳۔قانون
اسی بناء پر وہ مشروعیّت کی بھی تین قسمیں شمارکرتاہے۔
۱۔روایتی مشروعیّت(Traditional Legitimacy) :اس کی جڑیں اقوام اور ملتوں میں رائج رسم ورواج میں پائی جاتی ہیں ، جیسے موروثی بادشاہتیں ، باپ کی سرداری ، نسل پرستی ، طبقہ بندی۔
۲۔کرشمائی مشروعیّت:(Charismatic Legitimacy)جوقائدکی ذاتی خصوصیات پر اعتمادکرتی ہے اس کی بنیادایک فردکی غیرمعمولی اوراستشنائی اطاعت اورپیروی پرہے اوراس کی وجہ اس شخص کا تقدس پیرو ہونا اور نمونہ عمل ہونا ہے ۔
۳۔مشروعیّت قانونی(Rational_Legel Legitimacy) :یہ عقلی توافقات پراستوار ہے۔(۷)
فرڈریک نے مشروعیّت کے پانچ منابع بتائے ہیں ۔
۱۔دینی ۲۔فلسفی اور قانونی ۳۔روایتی
۴۔اسلوبی ۵۔تجرباتی(۸)
بعض افراد نے منابع مشروعیّت اور حکومت کے مبداء کو تین حصّوں میں مندرجہ ذیل تشریح کے ساتھ تقسیم کیا ہے ۔
۱۔اختیارات پرست نظریے
یہ نظریے خودتین طرح کے ہیں :
الف :معاشرتی معاہدے (Social Contract) کا نظریہ
اس نظریے کے مطابق حکومت اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کی رو سے عوام اپنے آپ کو حکومت کے احکامات کا پابند سمجھتی ہے اور ان پر عمل درآمد کو اپنے لیے ضروری جانتی ہے اور حکومت نے ان کے امور کے انتظام و انصرام ، فلاح و بہبود اور امن و امان کے قیام کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ب:عوامی ارادے (Public Will) کا نظریہ
اس کی رُو سے اگر تمام لوگ یاان کی اکثریت کسی کی حکومت کو چاہیں تو ان کی حکومت قانونی اورمشروع ہوگی۔
ج:راضی ہونا (Consence)
معاشرے کے افرادکاکسی حکومت سے راضی اور خوش ہونا اس کی مشروعیّت کا معیارہے، اس کے باعث عوام اپنے آپ کو ان کے احکامات کے پابند سمجھیں گے اور حکومت کو بھی احکامات صادرکرنے کا حق حاصل ہو گا اور لوگوں کو ان احکامات کو تسلیم کرناپڑے گا۔
نظریات کا تنقیدی جائزہ
مذکورہ بالا نظریوں میں سے ہر ایک پر مشترکہ اور خصوصی اعتراضات سامنے آتے ہیں،اختصار کی خاطر تینوں پر جو مشترکہ اعتراضات ہیں انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے
اوّل :مذکورہ تمام نظریے مشروعیّت کے معیار کے حوالے سے نہ تو جامع ہیں اور نہ ہی ہمہ گیر، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب کی نگاہ صرف اس مسئلہ پر اٹکی ہوئی ہے کہ سیاسی اقتدار کہاں سے حاصل کرنا چاہیے، لیکن اس قدرت و طاقت کا استعمال کیسے کیا جائے،اس کا مشروعیّت میں ان کی نظر میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اس طرح کی فکر کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر حکومت اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ بھی کرے وہ پھر بھی مشروع ہے،ایسی چیزبالکل قابل قبول نہیں ہے مگر (Ethical Positivism) کی بنیادپر،کیونکہ اُس میں اخلاقی اقدارکی سرے سے کوئی حیثیت اور مقام نہیں ہے۔(۹)
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ عوام معاشرتی معاہدے میں ان امور کے لیے کافی ضمانت حاصل کرلے یاحکمرانوں کے بارے میں اپناارادہ تبدیل کرلے یاغیراخلاقی رویوںکیخلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے حکومت کی مشروعیّت کو ختم کر دے اور دوسروں کو ان کی جگہ پر بٹھا دے یاپھرحکمرانوں کو ان اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دے۔
اس بات کا جواب ، اس صورت میں اخلاقی اصولوں کی پابندی عوام کی خواہش ، ارادے ، معاہدے اور رضا کے تابع ہو گی اور اصولی لحاظ سے مشروعیّت اور عدم مشروعیّت میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔ اس بنیاد پر اگر معاشرہ اور عوام حکمرانوں کے ظلم کو قبول کر لیں تو حاکم کی مشروعیّت اسی طرح باقی رہے گی ۔
دوّم :ہرمعاشرے میں ایک مخالف اقلیت موجود ہوتی ہے ، مذکورہ بالانظریوں کی صورت میں اس اقلیت کی ذمہ داری کیا ہوگی جوحکومت کوپسندنہیں کرتی اوروہ اس معاشرتی معاہدے میں شریک نہیں ہوئی یا حکومت ان کے ارادے پر انحصار نہیں کرتی یا اس نے موجودہ حکومت اور حکمرانوں پر اطمنیان کا اظہار نہیں کیا یا اس میں حرکت کرنے کی صلاحیت ہی نہیںرکھتی(ان افراد کی مثال جن کی عمر قانونی لحاظ سے پوری نہیں ہوئی،دیوانے اوران)کے لیے کیا حکم ہوگا؟
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اگر مشروعیّت صرف اور صرف معاہدے ، عوام کے ارادے یا شہریوں کے راضی ہونے میں منحصر ہو جائے تو پھر اس گروہ پر جو اس دائرے سے خارج ہوں ان پر حکومت کی توجہیہ کیسے کی جا سکتی ہے اور انہیں کس طرح حکومت کے احکامات ماننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے،علاوہ ازیں بعض اوقات مخالفین اقلیت ہی نہ ہوں بلکہ وہ عوام کی نصف تعداد پر مشتمل ہوں ۔
بنا بر ایں اگر عوام میں سے نصف افراد کسی حکومت سے راضی ہوں اور نصف راضی نہ ہوں تو اس نظریے کی رو سے نصف دیگر ہر حکومت غیر مشروع ہو گی ۔
دوسری طرف ایک ہی معاشرے میں مد مقابل دو حکومتیں کیسے ممکن ہیں یابعض پر حکومت ہو اور بعض دوسروں پر حکومت قائم نہ ہو یہ بھی ممکن ہے ؟
اس لیے منطقی طور پر حکومت کی مشروعیّت کے لیے کسی اور منبع کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو سب افراد پر حکومت کو مشروع بنائے ورنہ عالمی سطح پر کوئی بھی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی، جو عوام کے حامی نظریات پر مشتمل تمام شہریوں پر حکومت کرنے کا جواز فراہم کرے ۔
سوم :بہت سے موارد میں معاشرتی ترکیب ہو جاتی ہے مثلاً نا بالغ افراد کے قانونی سن بلوغ تک پہنچ جانے سے بہت سے نئے افراد میں معاشرتی معاہدے میں شریک ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دوسرے صلاحیت رکھنے والے دنیا سے چلے جاتے ہیں ، یہ بات ممکن ہے کہ نئے افراد کی فکر و نظر ، ارادہ اور میلانات پہلے والے عناصر کے مخالف ہو ۔
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ سابقہ عناصر کی رائے میں بھی تبدیلی آجائے، عوام کے حامی نظریے کی بنیاد پر اصول کے مطابق معاشرے کی رائے میں جونہی تبدیلی آجائے یا معاشرے کی ترکیب بدل جائے تو حکومت اور حکمران اپنی مشروعیّت کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھیں، اس صورت میں تبدیلیوں کیساتھ (مثلاً مخالفین 49% سے اگر 51% ہو جائیں ) بغیر کسی وقفے کے حکومت یا حکمرانوں کو تبدیل کرنے کے اقدام کرنے چاہیں اور گزشتہ معاہدہ ، ارادہ یا رضایت تبدیل شدہ صورتحال میں موثر نہیں ہو سکتی ،پس حکومت کے استحکام اور دوام کے لیے اگرچہ وہ چند ہی کیوں نہ ہوں اس سے بالاتر معیار کی ضرورت ہے ۔
عملی اطلاق پر زور دینے کے نظریے
عملی اطلاق پر زور دینے کے نظریے (Theories Functionalistic) وہ نظریات ہیں جو حکومت کی کارکردگی اور فعالیت کو اس کے قانونی ہونے کا معیار قرار دیتے ہیں ان میں سے اہم ترین نظریے یہ ہیں ۔
الف:نظریہ عدالت اور اخلاقی اقدار (Moral Values)
اس نظریے کے تحت عدل وانصاف کا قیام سیاسی ذمہ داریوں کا سرچشمہ ہے،بنا ء برایں ہر وہ حکومت جو عدل و انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد کرے وہ مشروع،قانونی اور جائزاور وہ حکومتیں اور حکمران جو عدل و انصاف کے خلاف اقدام اٹھائے وہ سیاسی لحاظ سے جائز نہیںاور فاقد مشروعیّت ہے یہاں پر عدل و انصاف ، اہم ترین اور اعلیٰ ترین اخلاقی قدر کے طور پر مقصود نہیں اور نہ ہی اس سے مرادملکہ نفسانی ہے بلکہ حکومت اور حکمرانوں کے سیاسی طرز عمل میں عدل و انصاف کا قیام مقصود ہے ۔
اس بنا پر اس نظریے کے مطابق اگر کوئی شخص طاقت کے سیاسی استعمال کے حلقے سے باہر ایک ظالم فرد شمار ہوتا ہو لیکن اپنے سیاسی طرز عمل میں عدل و انصاف سے کام لے تو اس کی حکومت قانونی اور مشروع ہے اور مشروعیّت حکمرانوں کے ذاتی طور پر عادل ہونے سے مربوط نہیں ہے ۔
ب:نظریۂ ضرورت
اس نظریے کی بنیاد پر فلاح و بہبود ، امن و امان اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشش کرنا سیاسی ذمہ داریوں اور حکومت کی مشروعیّت کا سر چشمہ ہے ۔
اعتراض
عدالت کی تعریف کیا ہے ؟ یہ ایک مشکل امر ہے لیکن اسے نظر انداز کرتے ہوئے ان دو نظریوں پر اعتراض یہ ہے کہ یہ فقط حکمرانوں کے مؤقف ، منصب اور احکامات کی توجہیہ کرتے ہیں لیکن مشروعیّت کے بارے میں دیگر سوالوں کا جواب نہیں دیتے،حالانکہ صرف احکامات کے عادلانہ ہونے یا عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے گامزن ہونے سے کسی خاص شخص یاگروہ کی حکومت کا جواز فراہم نہیں ہوتا،خصوصاً جب مختلف افراد یا گروپس عدل و انصاف کے قیام اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک ہی درجے پر ہوں تو ان میں سے کس کی حکومت قانونی اور جائز ہے ؟ اور کس بنیاد پر ایک کی اطاعت واجب اور دوسرے کی لازم نہیں ہے ؟ اس بارے میں جو بھی معیار اپنائیں بالآخر اصلی نظریے کو خیرباد کہنا پڑے گا اور دوسرے مخالف نظریات کا سہارا لینا پڑے گا ۔
۳۔نظریہ مشروعیّتِ الٰہی
اس نظریے کی رو سے مشروعیّت کا سرچشمہ اور معیار اللہ تعالیٰ کا اذن اور فرمان ہے۔ تاریخ میں’’مشروعیت الٰہی ‘‘کا نظریہ تین طرح سے موجود رہا ہے (۱۰)اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بارے میں ہم صرف اسلام کے نقطہ نظر کو بیان کریں گے ۔
اسلام میں مشروعیّت
اس نظریے پربحث تمحیص میں سب سے پہلے مشروعیّت کا سرچشمہ اوراس کی شناخت کامنبع کے درمیان فرق واضح کرنا چاہیے ، مشروعیّت کاسرچشمہ وہی اس کا اصلی مصدرہے اور یہاں پر اس کے منبع سے مراد اسلام میں مشروعیّت کی ادّلہ اورمنابع ہیں جیسے کتاب اورسنت۔
اسلام میں ذاتی مشروعیّت کا صرف ایک ہی سرچشمہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے کیونکہ ساری کائنات اور انسان کا خالق و مالک قدرت و طاقت کا مالک ، مؤثر حقیقی،جوپورے جہان اورانسان کے امور کی تدبیرکرنے والااورپالنے والاہے،اسلام میں حکومت سیاسی حاکمیت (جوکہ مخلوقات کے امور میں ایک طرح کا تصرف ہے ) ربوبیت کا ایک پہلو اور حصّہ شمار ہوتا ہے،توحید ربوبیت ( یعنی اللہ تعالیٰ رب ہونے میں یکتا ہے )، کسی میدان میں بھی خواہ وہ نظام تکوینی ہو یا تشریعی،اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی اور کو سرچشمہ اور مبداء قرار نہیں
دیتی،اس بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے :
۱۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ (۱۱)
اللہ کے سوا کسی کی حکمرانی نہیں
۲۔ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُواالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ
وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْن(۱۲)
تمہارا ولی اور سرپرست صرف اللہ ، اس کا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
۳۔ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ فَاللّٰہُ ھُوَالْوَلِی (۱۳)
کیاانہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنالیے ہیں صرف اللہ ولی اور سرپرست ہے ۔
پس کوئی بھی انسانوں کے اجتماعی معاملات میں مداخلت اور حکمرانی کا حق نہیں رکھتا مگر یہ کہ معتبر دلیل شرعی کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا منصوب ہونا یا ما ذون ہونا ثابت ہو،اللہ تعالیٰ کی طرف منصوب ہونا یا اس کی طرف سے اذن ہونا بلا واسطہ یا با لواسطہ یعنی پیغمبر اکرم ؐ یا ان کے اوصیاء کی طرف سے بیان کیا گیا ہو،دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مسلمان پیغمبر اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوب سمجھتے ہیں،اس حقیقت کو قرآنِ مجید نے اپنی متعدد آیات میں بیان کیا ہے جن میں چند یہ ہیں :۔
۱۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔۔۔۔۔۔۔۔(۱۴)
نبی اکرم ﷺ مومنین سے زیادہ ان پر حق رکھتے ہیں ۔
۲۔ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم(۱۵)
اللہ کی اطاعت کرو ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو
۳۔ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ
الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔۔۔۔۔۔۔ (۱۶)
کسی مومن مرداورمومنہ عورت کیلئے جائزنہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی چیزکے بارے میں حکم دے دیں توانہیں اس کے حوالے سے کوئی اختیارہوجوبھی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے گاوہ گمراہ ہے ۔
اسی طرح شیعہ امامیہ قطعی ادلہ کی بنیادپرآئمہ اطہار ؑ کواللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص منصب کے ذریعے منصوب سمجھتے ہیں ۔ (۱۷)
علاوہ ازیں شیعہ علماء عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں باصلاحیت اور عادل فقہاء کو شارع مقدس کی طرف سے منصوب اور حکومت اور اجتماعی اور سیاسی قیادت میں عصر غیبت میں امام زمان ؑ کا نائب سمجھتے ہیں ۔
البتہ یہ مسئلہ ( جسے ولایت فقیہ کہا جاتاہے ) عصر غیبت سے مختص نہیں ہے بلکہ عصر حضور ؑاور معصوم کی سیاسی قدرت و طاقت کے زمانے میں بھی ممکن ہے ۔ جیسا کہ امیر المومنین ؑکی طرف سے مالک اشتر کو مصر کی حکمرانی کے لیے منصوب کیا گیا ۔
ولایتِ فقیہ کا انتخاب
مذکورہ رائے جسے ’’ نظریہ نصب ‘‘ کہا گیا ہے اور علمائے امامیہ کے درمیان مشہور ہے ، کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں بعض افراد کی طرف سے ایک جدید نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جس کے مطابق ولی فقیہ ، شارع کی طرف سے منصوب نہیں ، بلکہ شارع نے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ با صلاحیت اور عادل مجتہد کو رہبر اور قائد منتخب کریں ، پس وہ عوامی انتخاب کے بعد حکمرانی کے حامل ہوں گے اور اجتماعی امور میں تصرف کرنے کے مجاز ہوں گے نیز قیادت اور رہبریت سنبھالیں گے ۔
ان آراء و نظریات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے خاص فرصت کی ضرورت ہے لیکن جس پر توجہ دینا لازمی ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس بحث کے بنیادی سوال کا جواب ان دو نظریات کی بنیاد پر مختلف ہو گا ؟اور اگر جواب مختلف ہو تو یہ اختلاف کس چیز میں ہوگا ؟
بعض افراد نے پہلے نظریے کو’’مشروعیّتِ الٰہی‘‘اوردوسرے نظریے کو نظریہ ’’انتخاب ‘‘یاعوامی مشروعیّت الٰہی کا نام دیا ہے،اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ دونوں آراء کی اساس اوربنیاد وہی نظریہ مشروعیّت الٰہی ہے،کیونکہ دونوں نظریے مشروعیّت ذاتی اور اصلی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کو سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی اور منبع اور سرچشمہ کو قبول نہیں کرتے۔
لہٰذا عوامی کے لفظ کا اضافہ ایک طرح کا مجاز اور مسامحہ ہے اور اسے مشروعیّت الٰہی کے تحت ہی شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں عوامی حمایت اور ولایت وضعی اور اعتباری شرط ہے جسے شارع مقدس نے فقیہ کے لیے ولایت و حکومت کو برقرار کرنے کے لیے تائید یا ولایت کے نفاذ کے لیے ضروری قرار دیا ہے،اس بناء پر چند نکات سامنے آتے ہیں ۔
۱۔اگر نظریہ انتخاب ، حکومت کو سرے سے ہی ایک زمینی اور نیچے سے اوپر والی چیز سمجھے تو یہ نظریہ اسلامی فکر سے بالکل بیگانہ ہے ۔
۲۔اگر نظریہ انتخاب آسمانی اور زمینی دونوں کو سرچشمہ قرار دے تو مشروعیّت کے مبداء کے حوالے سے وہ ثنویت کا شکار ہو جائے گا ۔
۳۔اگر عوامی مشروعیّت کو الٰہی مشروعیّت کے تحت سمجھا جائے تو پھر یہ الٰہی مشروعیّت کے نظریے کے مدمقابل نہ ہوگا بلکہ اس کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اس طرح سے یہ فکر نظریہ نصب سے بھی سازگارہے ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ نظریہ نصب اور ولایت ِالٰہی کو قرار دینے کو دو قابلِ تصور صورتوں میں لاتا ہے ۔
۱۔نصب ِ مطلق
اس کی بنیادپر شارع فقیہ کے لیے جو ولایت مقرر کرتا ہے اس میں عوام کے انتخاب یاعدم انتخاب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے،وہ ہر صورت میں ولایت اور حکومت کو باصلاحیت اور صالح فقیہ کے لیے ثابت گردانتا ہے اور اس کے اجتماعی امور میں تصرف کو جائز اور ان امور میں اس کی اطاعت کو واجب قرار دیتا ہے ۔
۲ ۔نصب مقید
اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع فقیہ کے لیے لوگوں کے انتخاب کے بعد ولایت مقرر کرتا ہے نہ کہ اس سے پہلے ۔
(حوالہ جات)
(۱) لاریجانی ، محمد جواد ، دینداری و مد نسیم ، س ۵۸
(۲) اندرو وینست ، نظریہ ہادی دولت ، ترجمہ حسین بشریہ ، ص ۶۷ ، ۶۸
(۳) بنیاد ہای علم سیاست ، ص ۱۰۵ (۴) Robert A.Dahl, Modern Political Analysis Srhd.P.60
(۵) بنیاد ہای علم سیاست ، ص ۱۰۶
(۶) مزید مطالعہ کے لیے دیکھیں ، بشریہ ، حسین ، جامعہ شناسی سیاسی ، ص ۱۷ ، ۲۳
(۷) ماکس وبر ، اقتصاد و جامعہ ، ص ۲۷۳ ، ۲۷۴ (۸) بنیاد ہای علم سیاست ، ص ۱۰۷
(۹) مطالعہ کے لیے دیکھیں ، بنیادہای علم سیاست ، باب ۴ ، نظریہ ہای خاستگاہ دولت نیز فلسفہ سیاست ، موسئسہ آموزشی ویژوہشی امام خمینیؒ
(۱۰) دیکھئے ، مصباح یزدی ، محمد تقی ، فلسفہ سیاست ، ص ۱۷۷
(۱۱) انعام آیت ۵۷
(۱۲) مائدہ آیت ۵۵ (۱۳) شوریٰ آیت ۹ (۱۴) احزاب آیت ۶ (۱۵) نساء آیت ۵۹ (۱۶)سورہ احزاب آیت ۳۶
(۱۷)مزید مطالعے کے لیے ، آیت اللہ مکارم شیرازی ، پیام قرآن (تفسیر موضوعی قرآن ) ، ج ۹ ، (امامت در قرآن )