میثم تمارؓ کی عظمت
میثم تمارؓ امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالبؑ کے ممتاز شاگرد تھے،انہوں نے آپؑ سے کئی احادیث روایت کی ہیں اور اسلام کی معرفت بھی آپ ہی سے حاصل کی تھی،میثم اپنی زندگی کے آخری سال میں ۵۸ہجری یا ۶۰ ہجری میں حج کے لیے گئے اور وہاں سے مدینہ آئے،مدینہ میں وہ ام المومنین ام سلمہؓ کے مکان پرگئے،ام سلمہ ؓنے ان کے احترام کے طور پر انہیں اپنی ڈاڑھی معطر کرنے کے لیے ایک خاص عطر پیش کیا جس کا نام غالیہ تھا۔
میثم نے کہا:’’اگر اس وقت میری ڈاڑھی اس عطر سے معطر ہو رہی ہے تو وہ دن بھی دور نہیں جب اس خاندان کی محبت میں یہ خون سے رنگین ہوجائے گی۔‘‘
ام سلمہؓ نے فرمایا:
’’وَاللهِ لَرُبَّما سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ یُوصِی بِکَ علیاً‘‘میںنے رسول خداؐکو اکثر تمہیں یاد کرتے سنا ہے وہ علیؑ کو تمہارے بارے میں سفارش کیا کرتے تھے۔
میثم ایک آزاد کردہ غلام تھے،انہوں نے امیرالمومنینؑ سے تربیت پائی تھی اور قرآن کی تفسیر اور تآویل آپ ہی سے سیکھی تھی۔
ام المومنینؑ ام سلمہؓ کے گھر سے باہر آنے پر میثم کی ملاقات ابن عباسؓ سے ہوگئی،میثم نے ان سے کہا:’’اے ابن عباسؓ!کاغذ اور قلم لائیے اور بیٹھیے تاکہ میں آپ کے لیےقرآن مجید کی تفسیر بیان کروں جو میں نے امیرالمومنینؑ سے سیکھی ہے‘‘۔
ابن عباسؓ بیٹھ گئے اور لکھنے لگے،جو کچھ میثم نے کہا اس کی نوعیت بلاشبہ واضح ہے،وہ امام علیؑ کے واسطے سے رسول اکرمؐ سے حدیث روایت کرتے تھےاور ان دو بزرگ معلموں کی تفسیر امت کے لیے دہراتے تھے،گفتگو کے دوران میثم نے اپنے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کی اور ابن عباسؓ سے کہا:’’اگر آپ مجھے سولی پر دیکھیں تو کیسا محسوس کریں گے؟جن نو آدمیوں کو سولی پرلٹکایا جائے گا ان میں سے نواں میں ہوں گا،میری سولی کی لکڑی سب سے چھوٹی ہوگی اور زمین سے زیادہ نزدیک ہوگی‘‘۔
یہ باتیں ابن عباسؓ کے لیے سخت تعجب انگیز تھیں لہٰذا انہوں نے کہا:’’کیا تم کاہن ہوگئے ہو اور کہانت کرنے لگے ہو اور غیب کی باتیں بتانے لگے ہو؟‘‘یہ کہہ کر ابن عباسؓ نے ہاتھ بڑھایا تاکہ جو تفسیر قرآن میثم نے لکھوائی تھی اسے پھاڑ دیں۔
میثم نے کہا:’’ہاتھ روک لیجئے،جو پیشین گوئی میں نے کی ہے اگر وہ درست ثابت ہو اوریہ واضح ہوجائے کہ میں نے جو کچھ کہا ہے درست ہے تو پھر آپ اس تحریر سے استعفادہ کرسکتے ہیںاور اگر میری باتیں غلط ثابت ہوں تو پھر یہ کاغذ بیشک پھاڑ دیجئے گا‘‘۔
(حوالہ)
(منتہیٰ الآمال ج۱،ص۱۵۸)