مہمان کا احترام
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ امام علیؑ کے گھر مہمان ہوا،کھانا کھانے کے بعد امام علیؑ کا غلام قنبر تولیہ،طشت اور لوٹا لے کر آگے بڑحا تو آپ نے قنبر سے یہ چیزیں لے لیں تاکہ خود مہمان کے ہاتھ دھلائیں،مہمان نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور ملتجیانہ لہجے میں بولا:
’’یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ میرے ہاتھ دھلائیں؟‘‘
امام علیؑ نے فرمایا:’’تمہارا بھائی تم ہی جیسا ہے،وہ چاہتا ہے کہ تمہاری خدمت کا شرف حاصل کرے تاکہ اس کے عوض خدا اس کو جزا دے،پھر تم کیوں نہیں چاہتے کہ وہ ثواب کا یہ کام کرے‘‘؟
پھربھی مہمان نے انکار کیا مگر جب امامؑ نے اسے قسم دی کہ ’’میں اپنے مومن بھائی کی خدمت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں لہٰذا مجھے نہ روکو‘‘تو وہ بڑی شرمندگی سے راضی ہوا،امام علیؑ نے فرمایا:
’’میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ بغیر کسی جھجک کے اسی طرح دھلوا لو جیسے قنبر دھلاتا تو تم دھولیتے،تکلف بالکل نہ کرنا۔‘‘
جب امام علیؑ مہمان کے ہاتھ دھلا چکے تو آپؑ نےاپنے بیٹے محمد بن حنفیہؒ سے فرمایا:اس کے بیٹے کے ہاتھ تم دھلائو،میں تمہارا باپ ہوں اس لیے میں نے اس کے باپ کے ہاتھ دھلائے ہیں اور چونکہ تم میرے بیٹے ہو اس لیے تم اس کے بیٹے کے ہاتھ دھلائو،اگر بیٹا ،باپ کےساتھ نہ ہوتا بلکہ اکیلا میرا مہمان ہوتا تو میں خود ہی اس کے ہاتھ دھلاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب باپ اور بیٹا دونوں ساتھ ہوں تو ان کےرتبے کے لحاظ سے ان کے احترام میں فرق ہونا چاہیے‘‘۔
محمد بن حنفیہؒ نے حکم پدر کی تعمیل میں مہمان کے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔
امام حسن عسکریؑ نے اس واقعے کو بیان کر کے فرمایا:
’’سچا شیعہ ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔
(حوالہ)
(بحار الانوار ج۱۶،ص۱۴۸)