اہل بیت ؑ پر سلام
سوال ۸۵:۔ اہل بیتؑ پر سلام کرنے کا راز کیا ہے؟
محفلِ علم کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ معلّم متعلّمین اور مخاطبین پر درود بھیجے اور سلام کرے، یہ وہ ادب ہے جس کی خداوندِمتعال نے سورہ مبارکہ انعام میں ہمیں تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے:
وَإِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ (۱)
اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے:اسلام علیکم
یعنی جب مومنین تحصیلِ علوم کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو کہو سلام علیکم۔
وہ مخاطبین جو مجلس رسول اکرم ﷺ میں حاضر ہوتے تھے، دو گروہ تھے، ان میں سے متوسطین خود پیغمبر اکرم ﷺ سے سلام دریافت کرتے تھے اور بعض لوگ خدا سے سلام دریافت کرتے تھے، البتہ خدا کا سلام وہی سلامتی عطا کرنا ہے، ایسا نہیں کہ خدا لفظی طور پر کسی کو سلام کرے اور سلامتی کی مہم ترین قسم بھی سلامتی قلب ہے۔
اگر کوئی دل غیر خدا کی یاد سے خالی ہو تو ایسا دل سالم ہے، جب ظرف قلب سالم ہو تو مظروف کے لیے خالی جگہ ہوتی ہے اور اس وقت علوم و معارف کو ایسے قلب میں ڈالتے ہیں، اس بناء پر خداوندِمتعال انسان کو پہلے ظرف عطا کرتا ہے پھر ظرفیت اور آخر میں مظروف عطا کرتا ہے، دوسری طرف سے سلامت قلب دل کے ٹوٹنے سے ہے، لہٰذا اگر انسان ایسی حالت پیدا کرے کہ اس کا دل ٹوٹ جائے تو اس کو شکر گزار ہونا چاہیے، اگر کوئی بات حاصل کرے تو شاکر ہونا چاہیے کیونکہ یہ سب الٰہی عطیے ہیں، بہرحال دل کی سلامتی نصف راستہ ہے کیونکہ جب تک سالم ظرف مظروف سے خالی ہو، مفید نہیں۔
یہ جو ہم زیارتوں میں درگاہ معصومینؑمیں عرض ادب کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، یہ سلامتی قلب و ظرف کی سلامتی کے ساتھ مربوط ہے اور وہ رحمت جو ہم مانگتے ہیں وہ مظروف کی طرف ناظر ہے۔
درحقیقت ہم خدا سے دو چیزیں طلب کرتے ہیں، ایک: سلامتی ظرف قلب، دوم: عالی ترین مظروف، یعنی خدا سے چاہتے ہیں کہ اپنی رحمت و برکات کو ہمارے قلب میں نازل کرے اور ہمارے قلب کو اپنے سوا ہر چیز سے پاک کر دے۔
(حوالہ )
(۱)سورہ انعام آیت ۵۴