(۱)’’ قال رسول الله ﷺ: قال الله عز وجل:
إن من عبادي المؤمنين عبادا لا يصلح لهم أمر دينهم إلا بالغنى والسعة والصحة في البدن فأبلوهم بالغنى والسعة وصحة البدن فيصلح عليهم أمر دينهم، وإن من عبادي المؤمنين لعبادا لا يصلح لهم أمر دينهم إلا بالفاقة والمسكنة والسقم في أبدانهم فأبلوهم بالفاقة والمسكنة والسقم، فيصلح عليهم أمر دينهم وأنا أعلم بما يصلح عليه أمر دين عبادي المؤمنين‘‘
رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
میرے مومن بندوں میں کچھ بندے ایسے ہیں جن کا دین دولت،وسعت رزق اور جسمانی صحت سے قائم ہے تو میں انہیں دولت،وسعت رزق اور جسمانی صحت دے کر آزماتا ہوں تاکہ ان کا دین قائم رہے اور میرے کچھ مومن بندے ایسے ہیں جن کا دین فقرہ و فاقہ،غربت اور جسمانی بیماری سے قائم رہ سکتا ہے تو میں انہیں اسی سے آزماتا ہوں تاکہ ان کا دین قائم رہے اور میں جانتا ہوں کہ میرے مومن بندوں کا دین کس چیز سے قائم رہ سکتا ہے۔
(۲)’’عن علي بن الحسين ؑ قال:
الصبر والرضا عن الله رأس طاعة الله ومن صبر ورضي عن الله فيما قضى عليه فيما أحب أو كره لم يقض الله عز وجل له فيما أحب أو كره إلا ما هو خير له‘‘
امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
اللہ کی تقدیر پر صبر و رضا اطاعت الٰہی کی بنیاد ہے،جو اللہ کے فیصلے پر صابر(وشاکر) اور راضی ہو خواہ وہ اسے پسند ہو یا نا پسند تو اللہ بھی اس کی پسند و ناپسند کے متعلق وہی فیصلہ کرے گا جو اس کے لیے بہتر ہوگا۔
(۳)’’قال علي بن الحسين ؑ:
الزهد عشرة أجزاء. أعلا درجة الزهد أدنى درجة الورع، وأعلى درجة الورع أدنى درجة اليقين، وأعلى درجة اليقين أدنى درجة الرضا‘‘
امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:
زہد کے دس اجزا ہیں:زہد کا اعلیٰ ترین درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور ورع کا اعلیٰ ترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اور یقین کا اعلیٰ ترین درجہ رضا کا پست ترین درجہ ہے۔
(۴)’’عن أبي جعفر ؑ قال:
أحق خلق الله أن يسلم لما قضى الله عز وجل، من عرف الله عز وجل، ومن رضي بالقضاء أتى عليه القضاء وعظم الله أجره، ومن سخط القضاء مضى عليه القضاء وأحبط الله أجره‘‘
امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا:
اللہ کے فیصلے کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو اور جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہے گا تو اللہ کا فیصلہ ہو کر رہے گا اور اللہ اس کے اجر میں اضافہ کر دے گا اور جو قضائے الٰہی پر ناراض ہوگا تواللہ کا فیصلہ جاری ہو کر ہی رہے گامگر اللہ اس کو اجر سے محروم کردے گا۔
(۵)’’عن أبي عبد الله ؑ قال:
أوحى الله عز وجل إلى داود ؑما اعتصم بي عبد من عبادي دون أحد من
خلقي، عرفت ذلك من نيته ثم تكيده السماوات والأرض ومن فيهن إلا جعلت له المخرج من بينهن وما اعتصم عبد من عبادي بأحد من خلقي، عرفت ذلك من نيته إلا قطعت أسباب السماوات والأرض من يديه وأسخت الأرض من تحته ولم أبال بأي واد هلك‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
خدا نے حضرت دائودؑ کو وحی فرمائی کہ جب بھی کوئی بندہ مجھ سے تعلق جوڑتا ہے اور میرے غیر سے لاتعلق ہوجاتا ہے اور میں جب اس کی نیت دیکھتا ہوں تو پھر چاہے ساتوں آسمان اور زمینیں اس کو جال میں پھنسا لیں تب بھی اس کے نکلنے کا راستہ بنادتیا ہوں اور جب کوئی بندہ مجھے چھوڑ کر مخلوق سے لو لگاتا ہے اور میں اس کی نیت دیکھتا ہوں تو اس سے زمین و آسمان کے تمام اسباب چھین لیتا ہوں اور اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لیتا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا۔
(۶)’’عن أبي عبد الله ؑ قال:
أيما عبد أقبل قبل ما يحب الله عز وجل أقبل الله قبل ما يحب ومن اعتصم بالله عصمه الله ومن أقبل الله قبله وعصمه لم يبال لو سقطت السماء على الأرض أو كانت نازلة نزلت على أهل الأرض فشملتهم بلية، كان في حزب الله بالتقوى من كل بلية، أليس الله عز وجل يقول: ” إن المتقين في مقام أمين‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
جو بندہ اس امر کی طرف متوجہ ہو جسے خدا پسند کرتا ہے تو خدا بھی اس بات کی طرف متوجہ ہوگا جسے وہ پسند کرتا ہوگا،جس نے خدا سے تعلق جوڑا اور خدا پر توکل کیا خدا اس کی حفاظت کرے گا اور اسے کوئی پروا نہ ہوگی چاہے آسمان زمین پر ٹوٹ پڑے یا کوئی حفاظت کرے گا اور اسے کوئی پروا نہ ہوگی چاہے آسمان زمین پر ٹوٹ پڑے یا کوئی مصیبت سب اہل زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے،اس وقت بھی وہ خدا کے گروہ میں ہر بلا سے محفوظ رہے گا،کیا خدا نے نہیں کہا کہ پرہیزگار امن کے مقام میں ہوں گے۔
(۷)’’عن أبي عبد الله ؑ قال: من أعطي ثلاثا لم يمنع ثلاثا: من أعطي الدعاء أعطي الإجابة ومن أعطي الشكر أعطي الزيادة، ومن أعطي التوكل أعطي الكفاية ثم قال: أتلوت كتاب الله عز وجل: ” ومن يتوكل على الله فهو حسبه "؟ وقال: ” لئن شكرتم لأزيدنكم "؟ وقال: ” ادعوني أستجب لكم‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
جسے تین چیزیں مل گئیں وہ تین چیزوں سے محروم نہیں رہے گا:
(۱)جسے دعا کی توفیق مل گئی وہ دعا کی قبولیت سے محروم نہیں رہے گا۔
(۲)جسے شکر کی توفیق مل گئی وہ نعمت میں اضافے سے محروم نہیں رہے گا۔
(۳)جسے توکل کی دولت مل گئی وہ کفایت شعاری سے محروم نہیں رہے گا۔
کیاتو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ اللہ فرماتا ہے:
جو اللہ پر بھروسہ کرے گا،اللہ اس کے لیے کافی ہے۔(سورہ طلاق:آیت۳)
اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہاری نعمتوں کو بڑھا دوں گا۔(سورہ ابراہیم:آیت۸)
(۸)’’عن أبي عبد الله ؑ أن فيما أوحى الله عز وجل إلى موسى بن عمران ؑ: يا موسى بن عمران: ما خلقت خلقا أحب إلي من عبدي المؤمن فإني إنما أبتليه لما هو خير له وأعافيه لما هو خير له وأزوي عنه ما هو شر له لما هو خير له وأنا أعلم بما يصلح عليه عبدي، فليصبر على بلائي وليشكر نعمائي وليرض بقضائي، أكتبه في الصديقين عندي، إذا عمل برضائي وأطاع أمري‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
خدا نے حضرت موسیٰؑ بن عمران کو وحی فرمائی:اے موسیٰ بن عمرانؑ! مجھے اپنی مخلوق میں مومن بندہ سب سے زیادہ محبوب ہے،میں اگر اس کو آزمائش میں ڈالتا ہوں تو اس میں اس کی بھلائی ہوتی ہے اور اگر اسے عافیت دیتا ہوں تو اس میں بھی اس کی بھلائی ہوتی ہے،اگر میں اس سے کسی چیز کو دور رکھتا ہوں تو اس میں بھی اس کی بھلائی ہوتی ہے،میں بہتر جانتا ہوں کہ میرے بندے کی بھلائی کس چیز میں ہے،مومن کو چاہیے کہ وہ میری آزمائش پر صبر کرے اور میری نعمتوں کا شکر ادا کرے اور میری قضا پر راضی رہے، میں ایسے شخص کا نام اپنے پاس صدیقین میں لکھوں گا جو میر ی رضا پر خوش رہے گا اور میرے امر کی اطاعت کرے گا۔
(حوالہ جات)
(کافی ج۲ ص۶۰)
(کافی ج۲،ص۶۰)
(کافی ج۲،ص۶۲)
(کافی ج۲،ص۶۲)
(کافی ج۲،ص۶۵)
(کافی ج۲،ص۶۵)
(کافی ج۲،ص۶۱)