Nasihatenکتب اسلامی

اصلاحِ نفس

سوال ۴۹:۔ ہم کس طرح اپنی اصلاح کریں؟قلب کی سلامتی و بیماری کیا چیزہے؟
درج بالا سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ چند باتیں ذکر ہوں۔
۱۔ وہ تمام علوم جو حوزہ و یونیورسٹی میں پڑھائے جاتے ہیں، مستقیم یاغیرمستقیم طورپر انسان شناسی کے محتاج ہیں، وہ علوم جو یونیورسٹی میں پڑھائے جاتے ہیں یا انسانی ہیں یا سائنسی وتجربی، اگر علوم انسانی ہوں تو انسان شناسی کے بغیر نتیجہ خیز نہیں کیونکہ علومِ انسانی کے مرکزی عنصرکو حقیقت ِانسان تشکیل دیتی ہے، علومِ تجربی انسان شناسی کے ساتھ مربوط نہیں، لیکن علومِ تجربی کی فعالیت انسان کے بارے میں ہے، اگر ایک انجینئر گھر بنانا چاہتا ہے، شہر کا یا سٹرک وغیرہ کا نقشہ تیار کر تا ہے، جنگل بیابان کو منظم کرنا چاہتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ انسان بہتر زندگی گزاریں، اگر کوئی دریا شناس، ستارہ شناس، زمین شناس، ماہر نباتات، حیوانات و معدنیات ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان ان چیزوں سے بہتر استفادہ کریں۔
اس بناء پر حوزہ و یونیورسٹی میں پیش کیے جانے والے تمام علوم انسان شناسی کے بغیر سودمند نہیں، یعنی یا خود وہ علوم ناقص ہے یا انکا فائدہ کوئی نہیں ہے اسی وجہ سے آیات قرآن کا ایک وسیع حصّہ حقیقت ِ انسان سے متعلق ہے۔
حقیقت ِانسان کیا ہے؟ انسان کی انسانیت بنانے والے بنیادی عوامل کون سے ہیں؟ انسان کی بیماریاں کیا ہیں؟ اس شجرہ طوبیٰ کے مربی و باغبان کون ہیں؟ اور اس کے رہنما یا رہزن کون ہیں؟ قرآن وسیع حصّہ میں ان کو مشخّص کرتا ہے، اس بناء پر اگر ہم خود کو نہ پہچانیں تو جن علوم کو ہم حاصل کر رہے ہیں ان سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
۲ ۔ لغتِ قرآنی میں انسان صرف وہ نہیں جو صرف لیبارٹری میں پوسٹمارٹم و چیر پھاڑ کی حد تک محدود ہو، بدن وجسم صرف طب کے دائرے میں ہے، وہ قوت جو اس بدن کی تدبیرو ہدایت و رہنمائی کرتی ہے، وہ نفس و روحِ انسان ہے اور اس حقیقت کی علومِ انسانی میں تشخیص کی جا سکتی ہے نہ کہ علوم ِتجربی میں۔
۳ ۔ جیسا کہ جسم کبھی اندر سے آفت زدہ ہوتے ہیں اور کبھی باہر سے، کبھی اندر سے مشتعل ہوتے ہیں اور کبھی باہر سے، ارواح بھی اسی طرح ہیں، مثال کے طور پر کبھی کپڑے کو باہر سے آگ لگتی ہے اور اسے جلا دیتی ہے اور کبھی آگ اندر سے ہوتی ہے نہ کہ باہر سے، اندرونی آگ کی شناخت وعلاج اور اس کا روکنا آسان نہیں ہے۔
ارواح و نفوس بھی اسی طرح ہیں، مثلاً پتھرخود آگ لگانے والا ہے، ایسا نہیں کہ کوئی باہر سے اسے آگ لگائے۔
ہم حضرت امیرالمومنین ؑ سے نورانی و شیریں واقعہ نقل کرتے ہیں تاکہ اس کے ضمن میں اس کی تربیتی تاثیر واضح ہو، خلیفۂ سوم کے زمانہ میں کوئی شخص اس کے پاس حاضر ہوا اور کہا: آپ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسانوں کو یا سزا ملے گی یا جزاء، اگر صالح ہوں تو جزاء دیکھیں گے اور اگر غیر صالح ہیں تو اس کا انجام دیکھیں گے، میں قبرستان کے پاس سے گزرا ہوں اور ایک کافر کی کھوپڑی اپنے ہمراہ لایا ہوں، آپ کے عقیدہ کے مطابق کافر مرنے کے بعد جلتا ہے لیکن میں نے اس ہڈی کو ہاتھ لگاکر اچھی طرح محسوس کیا ہے یہ تو ٹھنڈی ہے اور حرارت یا جلنے کی کوئی علامت اس میں نہیں ہے، پس قبر کی آگ کہاں ہے؟
حضرت عثمانؓ جو ان معارف کو درک کرنے سے عاجز تھے، کہنے لگے اس کو علی بن ابی طالبؑ کے پاس لے جائو تاکہ حضرت مشکل کو حل کریں، حضرت امیرالمومنینؑ تشریف لائے، اس شخص نے اپنے سوال کو دہرایا، اگر قبر میں جلنے کا کوئی اثر ہو تو پھر اس کافرکی کھوپڑی کیوں ٹھنڈی ہے ؟ حضرت امیرالمومنین ؑ نے مسئلہ عام فہم بنانے کے لیے فرمایا: زندو مسعارلائو،یہ دونوں چیزیں پتھرکی مانند ہو تی ہیں جن کو آپس میں ٹکرانے سے آگ پیدا ہوتی تھی، ماچس کی ایجادسے پہلے چرواہے جنگلوں میں اسی سے استفادہ کرتے تھے۔
حضرت ؑنے فرمایا: ان دونوں پتھروں کو ہاتھ لگائو، دونوں ٹھنڈے ہیں، کہنے لگے : ہاں ایسا ہی ہے، پھر فرمایا: ان کو ٹکرائو، جب ٹکرایا گیا تو دیکھا کہ ان کے اندر سے آگ پیدا ہوتی ہے، تو آپ ؑ نے فرمایا: اگر کہتے ہیں کہ قبر میں آگ ہے، قبر میں کسی کو باہر سے آگ نہیں لگائی جاتی، آگ ان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔
معنوی امور میں بھی ایسا ہی ہے، کبھی انسان باہر سے نقصان دیکھتا ہے اور جلتا ہے اور کبھی اندر سے، بیرونی آگ جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہم سب اس سے بچنے کے راستے کو اچھی طرح جانتے ہیں، جو چیز اہم ہے وہ اندرونی آگ ہے جو ہمارے نفس و روح کو جلاتی ہے، ہمارا نفس اندر سے یا آفت زدہ ہے یا انشاء اللہ اپنے ساتھ نور رکھتا ہے۔
اب ان تمام بحثوں کو قرآن کی خدمت میں لے جاتے ہیں جو کہ ان تمام باتوں اور معارف کی بنیاد ہے، خداوندِمتعال نے جسم کے جلنے کی بھی بات کی ہے اور روح کے جلنے کی بھی بات کی ہے، جیسا کہ جسم و روح کے پُر فروغ ہونے کی بات کی ہے، جسم کے بارے میں فرمایا: کچھ لوگ جہنم کا ایندھن ہیں:
وَأَمَّاالْقٰاسِطُونَ فَکٰانُوالِجَھَنَّمَ حَطَباً
اور نافرمان تو جہنم کا ایندھن ہوگئے ہیں۔
قاسط یعنی جو اہلِ قسط ہے اور قَسط یعنی ظلم و جور، یہ قِسط بمعنی عدل و میانہ روی کے مقابل ہے، فرمایا: ظالم جہنم کا ایندھن ہیں، یہ خود جہنم کی آگ وغیرہ کو پورا کرتے ہیں، جہنم کے ایندھن کا خام مواد خود تباہ کار انسان ہے ۔
کچھ لوگ اپنے اندر سے آگ پیدا کرتے ہیں ۔ جن کو وقود کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں، وہ کُفر کے آئمہ و رہبر ہیں کہ ان کے بارے میں فرمایا :
وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ(۱)
تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔
یہ آگ لگانے والے ہیں اور آگ لگنے والے ہیں، انکی آگ دوسری جگہ سے نہیں آتی۔
روح و نفس کے بارے میں بھی فرمایا : کچھ لوگوں کے دل ایسے ہیں۔
نَارُ اللَّہِ الْمُوقَدَۃُ oالَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْأَفْئِدَۃِ(۲)
آتشِ الٰہی ان کے قلوب سے شعلہ ور ہوتی ہے۔
۴ ۔ خداوندِمتعال نے کسی کو بھی ایندھن یا سنگ وپتھر کی مانند، کہ جس کے باطن میں آگ ہوتی ہے،پیدا نہیں کیا، خداوندِمتعال نے سب کو پاک، شفاف اور صاف پیدا کیا ہے، یہ حفاظت نہ کرنا، مراقبت نہ کرنا یہ جو انسان ہرقسم کا کھانا کھاتا ہے، ہر چیز کو دیکھتا ہے، ہر جگہ جاتا ہے، ہر بات کرتا ہے، ہر بات سنتا ہے تو آہستہ آہستہ اپنے آپ کو آلودہ کر لیتا ہے، نفسِ انسان شفاف پانی کے دریا کی طرح ہے کہ اگر انسان اپنے ناشائستہ اعمال و افکار سے خود کو آلودہ نہ کرے تو بہت سے اسرارِ عالم اس میں منعکس ومتجلی ہوں، اگر کوئی خدانخواستہ کوشش کرے کہ باطل خیالات، افکارِ حرام، خواہشاتِ بد کو دریائے نفس میں داخل کرے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اس نے صاف پانی کو مٹی سے کر دیا ہے، مٹی سے آلودہ پانی کچھ نہیں دکھاتا، بعض لوگوں نے پانی کو مٹی سے آلودہ و مخلوط کر دیا ہے تو پھر یہ کسی چیز کو منعکس نہیں کرتا۔
خداوندِمتعال نے ہم سے فرمایا ہے: کہ میں نے تمہیں سرمایہ دیا ہے جو پانی کی طرح پاک، صاف وشفاف ہے، اگر تدبر کرو تو مسئلہ تمہارے لیے واضح ہو جائے گا، قرآن کی مختلف تعبیرات جیسے یَعْقِلوُنَ، یَتَفَکَّرونَ، یَتَذَکَّروُنَ، یَتَدَبَّرونَ اسی لیے ہیں، فرمایا : اگر آپ اپنے نفس کے پاک پانی کو آلودہ نہ کریں تو اس میں بہت سے اسرار متجلّی ہوں گے اور اگر خدا نہ کرے تم نے اسے آلودہ یا نامرتب کر دیا یا آلودہ بھی کیا اور نامرتب بھی کیا تو کچھ نہیں دیکھو گے ۔
صُمٌ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوّن (۳)
یہ سب بہرے گونگے اور اندھے ہوگئے ہیں اور اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔
اگر کوئی اس کوثر کی حفاظت کر سکے یعنی نہ کسی کا برا چاہے اور نہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کی فکر کرے، یہ شخص صاف و شفاف باقی رہتا ہے، جب صاف و شفاف، باقی رہتا ہے تو بہت سے راز اس کے لیے حل ہو جاتے ہیں، یہ بزرگ جن کو آپ دیکھتے ہیں کہ کسی مقام پر پہنچے ہیں، اسی راستے سے پہنچے ہیں، حرام غذا، فکر باطل، دوسروں کے لیے کنویں کھودنا، دوسروں کو برا بھلا کہنا، دوسروں کی آبرو ریزی کرنا، اندرونی آگ بھی ہے اور نفسِ کوثر کو آلودہ بھی کرتی ہے۔
خلاصہ اگر ہم ایسے سرمایہ کی حفاظت کریں تو علومِ انسانی میں بھی کامیاب ہیں اور علومِ تجربی و سائنسی میں بھی، پیغمبراکرم ﷺ سے نقل ہوا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
انسان کے لیے ضروری ہے کہ شب وروز میں آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ، دس منٹ، پانچ منٹ خلوت کرے اور اپنا محاسبہ کرے کہ چوبیس گھنٹوں میں مَیں نے کیا کیا ہے؟ کبھی انسان اپنی آخری عمر میں آرزو کرتا ہے کہ ایک لحظہ زندہ ہو اور سانس لے، بات کرے، ذکر کہے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں کچھ لحظہ اپنا محاسبہ کریں کہ میں نے اپنی عمر کے چوبیس گھنٹے خرچ کردئیے ہیں تو اس میںکیا حاصل کیا ہے؟
علمائے بزرگ ایک مثال ذکر کرتے ہیںکہ ایک کسان نے کئی سال محنت و کوشش کی اوراناج و اجناس کو ذخیرہ کیا، چالیس سال بعد جب گودام کے دروازے کو کھولا تو دیکھا اس میں کچھ نہیں تو سمجھ گیا کہ گودام میں کوئی چوریا چوہا تھا جو تمام اناج ومحصولات کو کھا گیا ہے، جب تک گودام کا دروازہ بندرہاہے، کوئی بھی باہر سے اس کو لوٹ نہیں سکتا تھا، لہٰذا واضح ہو جاتا ہے کہ مشکل اندر سے تھی، مولانا روم فرماتے ہیں:
گر نہ موشِ دزد در انبار ماست
گندم اعمال ۴۰ سالہ کجا است ؟
کوئی چالیس سال محنت کرے، اب اسے کہیں تو کیا رکھتا ہے؟ آیا آپ خدا سے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ تیرے لیے انجام دیا ہے؟ فلاں کام شہرت کے لیے انجام دیا ہے، چار آدمیوں نے تیری تعریف کی توُخوش ہو گیا یا دو آدمیوں نے تجھ پر اعتراض کیا تو نے میدان چھوڑ دیا، یہ سب کچھ تیرے اپنے لیے تھا، خدا کے لیے تو نے کیا کیا ہے؟
کیا ہمارے پاس کوئی ایک نقد عمل ہے کہ ہم کہیں اے خدا اس کو ہم نے تیری رضا کے لیے انجام دیا ہے؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر روز یہ حساب کریں، کیونکہ چور چوہے ہمارے دل کے زاویوں میں بہت زیادہ ہیں، رشوت، فریب، غیبت، تہمت، تکبر سے لے کر دیگر بیماریوں تک، البتہ ان سب کی اصلاح کی جا سکتی ہے، خصوصی طور پر جوانی میں، مثال کے طور پر اگر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی اولمپک میں کامیاب ہو گیا ہے اور ہم نے کہا خدا کا شکر ہے، اے خدا اس کی توفیقات میں اضافہ فرما اور ہمیں بھی توفیق دے کہ اس سے بہتر یا اس جیسے ہوں اورسجدہ شکر بجا لائیں تو ہمیں جاننا چاہیے کہ چور چوہے نے ہمارے وجود کے ذخیرہ میں راستہ پیدا نہیں کیا ہے لیکن اگر ہم بد گوئی، تہمتوں، طعن و تشنیع کو شروع کریں تو سمجھ لیں کہ ہمارے اندر چور چوہا داخل ہو چکا ہے، یہ چوہا اندر سے ہمارے اعمال بوسیدہ و برباد کرتا ہے، اگر دوسرے نے ترقی کی اور ہم خوشحال ہوئے اور کہا لَکَ الحَمد تو معلوم ہو گا کہ ہمارا قلب شفاف ہے، یہ تالاب جو کہ صاف ہے اس کو ہم نے آلودہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کوہم نے بے ترتیب کیا۔

(حوالہ جات)
(۱)سورہ بقر ہ آیت ۲۴
(۲)۔ سورہ حمزہ آیات ۶و۷
(۳)سورہ بقر ہ آیت ۱۸

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button