Nasihatenکتب اسلامی

عرفان و قرآن

سوال ۲۹:۔قرآن میں عرفان کا مقام کیا ہے ؟
عرفان میں چند بنیادی مطالب ہیں:
اوّل: عرفان علمِ حصولی (جو کسب سے حاصل ہوتا ہے) نہیںہے بلکہ اس کا اہم ترین حصہ تہذیبِ نفس اور تزکیۂ نفس سے حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم(۱)
اور آسمانی کتاب اور عقل کی باتیں سکھائے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ کر دے بیشک تو ہی غالب اور صاحب تدبیر ہے۔
اس کا ابتدائی حصہ فقہ، اصول، فلسفہ جیسے علوم سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ یعنی یُزَکِّیْہِمعرفان کے ساتھ مربوط ہے، اگر کوئی روح کے آئینہ کو صاف شفاف کرے اور سمجھ لے کہ آئینہ کو کس سمت گھمائے تو اس کے آئینہ وجود میں اسرارِ عالم چمکیں گے اور وہ انہیں جان لے گا ۔
حارثہ بن مالک جس نے درس نہیں پڑھا تھا، پیامبرِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے رات کو صبح میں اس حالت میں تبدیل کیا ہے کہ مقام ِیقین تک پہنچ گیا ہوں توآپ ﷺ نے فرمایا:ہرچیزکی علامت ہوتی ہے، تیرے یقین کی کیا علامت ہے؟ تو اس نے کہا : گویا میں عرش الٰہی کو دیکھ رہا ہوں، جنت کو دیکھ رہا ہوں اور جہنم اور اہلِ جہنم کو دیکھ رہا ہوں اورانکی آوازوں کو سن رہا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا :
عَبدُٗ نُوَّر اللَّہ قَلْبَہ
یہ وہ بندہ ہے جس کے قلب کو خدا نے نورانی کر دیا ہے ۔
قرآنی بحثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی اپنے نفس کو صاف و شفاف کرے یعنی سلیم الفطرت ہو اور جان لے کہ نفس کو کس سمت چلایا جائے، وہ اسرارِ عالم کو پا لیتا ہے، کبھی انسان اپنے نفس کے آئینہ کو سانپ، بھیڑیے اوربچھو کی طرف رکھتا ہے، اس صورت میں یہ آئینہ بھیڑیا، بچھو کے علاوہ کسی اورچیز کی نشاندہی نہیں کرے گا، یہ آئینہ کی کوتاہی نہیں بالآخر کوئی ہونا چاہیے جو انسان کو کہے کہ آئینہ صحیح سمت میں رکھو ۔
خداوندمتعال قرآن میں فرماتا ہے :
کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِoلَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ۔(۲)
دیکھو اگر تم کو یقینی طور پر معلوم ہوتا (تو ہرگز غافل نہ ہوتے) تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔
اگر صاحبِ علم الیقین ہو، صفائے قلب رکھتے ہو تو ابھی جہنم کو دیکھو گے وگرنہ مرنے کے بعد تو کافربھی جہنم کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے :
رَبْنَا اُبْصِرناَ وَ سَمِعْنَا
ایک دفعہ ہم حرمِ مطہر پیامبرِ اکرم ﷺ میں عمرہ مفردہ کی حالت میں حرم کے روبرو بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جوان میرے پاس آیا اور کہا: قبلہ صاحب میرا ایک قصہ ہے جو آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں، اجازت دیں میں قصہ بیان کروں، میں نے کہا، ہاں بیان کرو تو اس نے کہا میں ایران کے فلاں شہر سے ہوں اور جوس بیچتا ہوں، جوس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہم برف کا ایک ٹکڑا گلاس میں ڈالتے ہیں، اس کے بعد اوپر جوس ڈالتے ہیں تاکہ گلاس بھر جائے اور بازاری قیمت پر بیچتے ہیں، وہ برف کا ٹکڑا تو کوئی قیمت نہیں رکھتا، ہم نے معاہدہ کیا ہوا ہے کہ ایک گلاس جوس سو ریال (تقریباً 1روپیہ) کا دیں تو گلاس کی ایک مقدار کو ہم برف سے بھر دیتے ہیں تو اصولی طور پر جوس کی مقدار کم ہو جاتی ہے، پھر کہا کہ ایک روز صبح میں دکان پر آیا تاکہ دکان کھولوں تو میں نے دیکھا کہ برف کے ڈالے جو عام طور پر صبح قبل از طلوع آفتاب آتے ہیں اور دکان کے آگے رکھ دیتے ہیں، وہ شعلہ ور ہیں اور ان سے آگ نکل رہی ہے، میں سمجھ گیا کہ مشکل کہاں ہے، یہ جوس بیچنے میں ہماری دھوکہ دہی کا نتیجہ ہے، اس کے بعد میں گیا کچھ بڑے گلاس لیے اور ان میں برف ڈالتا ہوں اور اس بڑے گلاس میں پورا جوس ڈال کر خریدار کو دیتا ہوں، اس جوان نے قبر پیامبرِ اکرم ﷺ کے پاس یہ واقعہ بتانے کے بعد اسی آیت کو تلاوت کیا :
کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْم۔
خلاصہ : لقمۂ حرام آگ ہے، سورہ مبارکہ نساء میں فرمایا:
إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً(۳)
جو لوگ یتیموں کے مال ناحق چٹ کر جاتے ہیں ،وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں۔
ہم ایسا درس چاہتے ہیں جس میں فارغ التحصیل نہ ہوں کیونکہ ہمارا اصل دشمن شیطان فارغ التحصیل نہیں ہوتا، جب تک زندہ ہیں، آزاد نہیں چھوڑتا، ہم بھی جب تک زندہ ہیں دروس پڑھیں، حوزۂ علمیہ اور یونیورسٹی کے درس بیس، تیس سال بعد تھکا دیتے ہیں، ایسا درس پڑھنا چاہیے جو تھکاوٹ کو دور کرے، یہ وہی راہِ تہذیبِ نفس یا عرفانِ حقیقی ہے، باطن کو صاف کرنا اور ہمیشہ مراقبت کرنا راہِ عرفان ہے۔
مرحوم کلینیؒایک روایت نقل کرتے ہیں، ابتدائی انسان خواب نہیں دیکھتے تھے، انبیاء انہیں کہتے تھے کہ حساب کتاب ہے اور ہر کوئی اپنے اعمال کا جوابدہ ہے لیکن لوگ یقین نہیں کرتے تھے، آہستہ آہستہ لوگوں کو خواب نصیب ہوئے، اس کے بعد جو لوگ خواب دیکھتے تھے، صبح اپنے پیامبرؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے یہ کیا ہے، جو ہم خواب میں دیکھتے ہیں؟ تو ان کے پیامبرؑ فرماتے، یہ ان چیزوں کا نمونہ ہیں جو ہم مرنے کے بعد کے بارے میں بتاتے ہیں، بہرحال راہ تہذیب نفس (عرفان حقیقی ) بہترین راستہ ہے اور یہ پڑھے لکھے افراد یاحوزۂ علمیہ، دینی مراکز و یونیورسٹی سے مربوط نہیں اور نہ ہی تھکانے والا ہے
(حوالہ جات)
(۱) سورہ بقرہ آیت ۱۲۹
(۲)سورہ تکاثر آیت ۵،۶
(۳)سورہ نسا ء آیت ۱۰

Related Articles

Back to top button