اسلامی حکومت کے مخالفین
کبھی کبھار اس کے مخالف نظریہ یہ بھی بیان ہوتا ہے ، جیسا کہ ہمارے دور میں جناب ’’مہدی حائری ‘‘ نے خاص وجوہات کی بنیاد پر اسلامی حکومت کو فضول اور بے معنی قرار دیا ہے ۔
یہ نظریہ نہ صرف دوران غیبت میں اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ اسلامی حکومت کی جڑ کو اکھاڑ پھینکتا ہے اور رسول خدا ﷺ کی اسلامی حکومت کی بھی نفی کرتا ہے ۔ ان کا نظریہ ’’حکمت اور حکومت ‘‘ نامی کتاب میں یوں بیان ہوا ہے ۔
۱۔انسان کو ایسے مقام اور جگہ کی ضرورت ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکے اور ظاہر ہے کہ انسان کی یہ احتیاج اور وابستگی کسی معاہدے اور معیار کے بغیرانسان کے لیے اس خصوصی جگہ کی مالکیت کا سبب بنتی ہے جسے انسان نے زندگی کے لیے انتخاب کیا ہے ۔
۲۔انسان اپنی معاشرتی زندگی کے اعتبار سے زیادہ وسیع جگہ کے حوالے سے یعنی مشترک ماحول زندگی میں دوسروں کے ساتھ مالکیت میں حصّہ دار ہے،یہ مشترک مالکیت بھی انسان سے مختص،طبیعی اورکسی معاہدے اورقانون سے بے نیاز ہے ۔ اس بناء پرایک معاشرے کے تمام افراد اپنی سرزمین کے مشترکہ مالک ہیں ۔
۳۔کسی سرزمین پرحاکمیت / حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ مشترکہ مالک بہتر زندگی اور باہمی اور صلح آمیززندگی کے لیے کچھ افرادکواپنانمائندہ بنائیں ۔
۴۔اگرسب مشترکہ مالک ایک نمائندہ یاوکیل کا متفقہ طورپرانتخاب نہ کرسکیں توپھرآخری حل اکثریت رائے سے انتخاب ہے ۔
تنقید
یہ نظریہ نہ صرف دین کے لحاظ باطل ہے بلکہ فلسفہ سیاسی کے اعتبار سے بھی مخدوش ہے اور اس پر متعدد اعتراضات پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً :
۱۔پہلادعویٰ انسانی بنیادی حقوق کے لحاظ سے عمومیت نہیں رکھتا اورصرف جگہ یازمین پرمشتمل ہے کہ اسکا کوئی دوسرا مالک نہیں ہے اور اس شخص نے اس پر قابض ہونے کے بعد اُسے آباد کیاہے۔
۲۔دوسرادعویٰ یہ کہ بڑی زمین کے حوالے سے ان سب کی مشترکہ مالکیت ہے ، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ’’مشترکہ ماحول ‘‘ کی اصطلاح کلی ہے اور حقوق کے اعتبار سے اس کی حدود کا تعیّن نہیں ہے ۔ یعنی مشترکہ ماحول کہاں تک ہے ؟ اپنے محلے تک ؟ بستی تک ؟ شہر؟ملک ؟براعظم؟ یا ساری دنیا ؟
۳۔اگر حکمران مشترکہ مالکیت رکھنے والے افراد کی طرف سے نمائندہ یا وکیل ہو تو درج ذیل نقائص سامنے آتے ہیں ۔
الف : وکالت ایک ایسا معاملہ ہے کہ موکل کو اختیار ہے وہ جب چاہے اپنے وکیل کو معزول کر سکتا ہے اس صورت میں حکومت کو استحکام حاصل نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت متزلزل ہے۔
ب :موکل کیلیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے وکیل / نمائندے کی پیروی کرے پس نمائندگی والی حکومت طاقت و قدرت کی اساس پر استوار نہیں ہے،وہ معاشرے کواپنی اطاعت اور فرمانبرداری پر مجبور نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کو کوئی کام انجام دینے پرزوردے سکتی ہے۔
۴۔چوتھا دعویٰ مشترکہ مالکیت خصوصی کے منافی ہے ، کیونکہ:
الف: مشترکہ ملکیت کا استعمال بغیر کسی استثناء کے تمام مالکوں کی اجازت اور مرضی پر موقوف ہے ۔ نتیجہ کے طور پر اگر معاشرے کی اکثریت کسی کو اپنے نمائندے کے طور پر حاکم بناتی ہے تو وہ حاکم اس اقلیت کی اجازت کے بغیر جس نے اس کو ووٹ نہیں دیا ہے ، کسی قسم کا بھی حاکمیت کا حق استعمال نہیں کر سکتا ۔
ب : مشترکہ مالکیت میں مالکان میں سے کوئی ایک بھی نمائندگی کو ختم کر کے اپنے نمائندے کو معزول کر سکتا ہے ۔ نتیجہ کے طور پر معاشرے کا ہر فرد حاکم کو اپنے عہدے سے ہٹا سکتا ہے ۔ حالانکہ سیاسی افکار میں اس قسم کی کوئی چیز قابل تصور نہیں ہے ۔ (۱)
(حوالہ)
(۱) ۔ مزید معلومات کے لیے آیت اللہ جوادی آملی کی کتاب ’’ولایت فقیہ ولایت فقاھت و عدالت‘‘ ص ۲۰۷ تا ۲۳۲ اورانہی کی کتاب ’’ ولایت فقیہ ص ۱۱۰ ، ۱۱۲ ‘‘ کا مطالعہ کریں ۔