الفاظِ شک و تردید
سوال۴:۔ قرآن کریم میں لَعَلَّ اور اس جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، کیا یہ لفظ لوگوں میں مروجہ معنی میں استعمال ہوا ہے ؟ جو شک و تردید اور بے یقینی کی علامت ہے ؟
بعض کا نظریہ ہے کہ خدا کی طرف سے شاید لعل بمعنی یقین ہے لیکن متوجہ رہنا چاہیے کہ لفظ شاید کبھی متکلم کی طرف اور کبھی فعل کی طرف پلٹتا ہے اور متکلم کبھی عالم ہوتا ہے اور کبھی جاہل اور کبھی شک رکھتا ہے، خداوندِمتعال ایسا متکلم نہیں جو کسی چیز سے لاعلم ہو یا اس میں شک رکھتا ہو کیونکہ وہ ’’اِنَّہُ بِکُلَّ شَیئٍ عَلیمْ‘‘’’بِکُلَّ شَیئٍ شَہیْدہے‘‘’’بِکُلَّ شَی ئٍ مُحیٖطْ‘‘ ہے، پس ان کلمات کے استعمال کی بنیاد ان کا متکلم یعنی خدا نہیں بلکہ فعل کے ساتھ مربوط ہے ۔
کبھی انجامِ فعل یا کام کا ہونا پچاس، ستر یا نوے فی صد ہے تو متکلم کہتا ہے کہ آپ ان کاموں کو انجام دیں شاید فلاں قصد پورا ہو جائے کیونکہ یہ پچاس فی صد، علت کے تمام اجزاء نہیں بلکہ علت کے بعض اجزاء ہیں، مثلاً کوئی کاشتکاری کے اصولوں کی بنا پر زمین میں بیج ڈالتا ہے، اس کی آبیاری کرتا ہے اور اس پر َسپرے وغیرہ کرتا ہے، توکیاکہا جا سکتا ہے کہ سو فی صد طور پر یہ اُگ آئیں گے؟ مسلّما جواب منفی ہے ۔
اگر کوئی کھلی آنکھ سے اس بارے میں بات کرنا چاہے تو کہے گا، شاید یہ بیج پھل دار ہو جائیں، (مقامِ فعل) کیونکہ راستے میں کچھ اور نامعلوم عوامل بھی ہیں کہ ممکن ہے وہ ان بیجوں کے پھل دینے سے مانع ہوں، البتہ خداوندِمتعال جانتا ہے کہ ان میں سے کون سا دانہ پھل دے گا اور کون سا پھل نہیں دے گا، لیکن کام کا انجام پانا(بیج کا اگنا)ہمارے لیے لَعَلَّ کے ساتھ استعمال ہوگا۔
یہ جو فرمایاگیاہے روزہ رکھو (لعلکم تتقون) اس کے معنی یہ نہیں کہ معاذاللہ خداوندمتعال شک رکھتا ہے بلکہ وہ جانتا ہے کہ روزہ حقیقی تقویٰ عطا کرتا ہے، لیکن ہمارا روزہ کن تلخ حوادث سے دوچار ہو گا یا کس درجہ پرقبول ہو گا یا نہیں، یہ لَعَلَّ لیت ہمارے فعل کے ساتھ مربوط ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے موارد میں اگر کسی شخص کو کہیں کہ تیرا فلاں کام سو فی صد تمہارے آئندہ کو پورا کرے گا تو وہ غرور میں مبتلا ہو گا، اس لیے کہ وہ غرور میں مبتلا نہ ہو تعبیر اخلاقی یہ ہے کہ اسے کہا جائے شاید تم مقصد کو پا لو، بہرحال کلمہ لعل، لیت، عسیٰ جو قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے وہ خداوندِمتعال کی طرف نہیں پلٹتا ۔