طلاق کا حق
٭۲۲۶:۔ اسلام نے طلاق کا حق مرد کوکیوں دیا ہے؟
اس بات کی دلیل کہ طلاق کا حق مرد کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اجتماعی زندگی مدیر ومسئول کی محتاج ہے، اسلام نے بھی ایسے فرد کوجو عواطف اور احساسات کے مقابلے میں بہت کم تحت ِ تاثیر واقع ہوتا ہے اور اجتماعی مدیر یت کے حوالے سے قوی تر ہے، مشترک زندگی کو چلانے کیلئے بعنوان مسئول و مدیر و ذمہ دار قرار دیا ہے اور اس زندگی کے اخراجات کو پوراکرنا اس پر واجب کیا ہے، اس کو منحل و ختم کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی پہلے مرحلہ پر اسکے سپرد کیا گیا ہے، طلاق و جدائی کا مسئلہ چند صورتوں میں قابلِ تصور ہے۔
۱۔ حقِّ طلاق فقط مرد کے پاس ہو۔
۲۔ حقِّ طلاق فقط عورت کے پا س ہو۔
۳۔ عورت و مردہر کوئی بطور مستقل و ایک دوسرے کے برابر ، اسی حق کو رکھتے ہوں۔
۴۔ یہ حق دونوں کے پاس اشتراکی صورت میں (طرفین کے توافق کے ساتھ ) ہو۔
۵۔ طلاق کا حق اصلاً موجود ہی نہ ہو۔
۶۔ ابتداء میں طلاق کا حق مرد کے پاس ہو، لیکن عورت کے لیے بھی ضرورت کے مواقع پر مناسب راہ ِ حل مشخص ہو۔
پہلا فرض عورت کے لیے بند گلی کی مانند ہے اور جن موارد میں طلاق کی شدیدضرورت ہو وہ اس بنا پر محروم ہو جاتی ہے۔
دوسرا فرض عورتوں کے شدید اور ہیجان آمیز احساسات کی بنا پر طلاق کی تعداد کو غیر ضروری مواقع و موارد میں بھی بہت زیادہ ہونے کے علاوہ (کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق غالباً عورتیں ہی طلاق کا تقاضا کرتی ہیں)شادی وازدواج میں کمی اور خاندانی نظام میں دراڑ کا موجب بنتا ہے، چونکہ مرد کا عورت پر اعتماد ختم ہونے کا سبب ہے اور مردکے دل میں عورت کی محبت کو کم کر دیتا ہے۔
تیسرا فرض طلاق کے اعداد و شمار کو بہت زیادہ کر دے گا اور یہ مسئلہ بعض مغربی ممالک میں تجربہ ہوا ہے۔
چوتھا فرض بھی معقول نہیں ہے اور قانون ِ طلاق کے جعل کی حکمت کے خلاف ہے کیونکہ ممکن ہے ایک فریق طلاق چاہتا ہو جبکہ دوسرا اس کا طالب نہ ہو اور اس صورت میں ان کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی، البتہ تو افق کی بنا پر طلاق اسلام میں قابلِ قبول ہے۔
پانچواں فرض صحیح نہیں ہے، کیونکہ کبھی جدا ہوجانا اور اس رابطہ کا ختم ہونا طرفین کی بہتری میں ہوتا ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین فرض چھٹی صورت ہے،کیونکہ ایک طرف تو بلاوجہ نا معقول طلاق کے پھیلاو کو روکتا ہے اور دوسری طرف عورتوں کے حقوق ضائع ہونے میں بھی مانع ہے۔
اس طریقہ میں جن راہِ حل و کار ساز راستوں کو مد ِ نظر رکھا گیا ہے، وہ طلاق ِ وکالتی ، طلاق ِ قضائی اور طلاق ِ توافقی ہے، اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ راستہ کلی طور پر عورت کے لیے بند ہو۔(ا)
(حوالہ)
(۱) ر۔ک:پرسش ہاو پاسخ ما دفتر ہفتم،س ۲۲۷وسید علی ، کمالی، قرآن و مقام زن ،س۱۷۶۔۱۷۱