Ikhlaq o falsifa e ahkamکتب اسلامی

ریا سے نجات

سوال ۴ :دوسروں کے سامنے نیکی کر نے سے یہ با ت ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے کہ کہیں ریا کا ری نہ ہو جا ئے اس کا کیا علا ج ہے ؟
ریا،رؤ یت سے ما خو ذ ہے جس کے معنی اللہ کی عبادت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں مقا م ومنزلت کاحصول اور انکی خوشنودی حاصل کرنا ہے،یہ کا م حرا م ہے اور اس سے عبادت بھی باطل ہو جا تی ہے، ریا کار لوگوں پر ظاہر کر تا ہے کہ وہ خدا وند کا مخلص و مطیع ہے حا لا نکہ حقیقت میں ایسا ہو تانہیں ہے،یہ با ت قابل توجہ ہے کہ ریا تب ہو تا ہے کہ جب انسان ریا کا ری کا قصد رکھتا ہو اگر ایسا مقصد نہ ہو تو ریا کاری نہیں ہو گی اور نہ ہی گنا ہ ہو گا نیز ریا میں دنیا وی غرض جیسے لوگوں کے دلوں میں محبو بیت، ما ل یا منصب حا صل کر ناشامل نہ ہو، اس اخلا قی رذیلت کی جڑیں انسان کی معرفت کی کمزوری میں پا ئی جا تی ہیں اور اس گنا ہ ِکبیرہ اورروحانی بیما ری سے مبا رزہ و مقابلہ کے لئے معرفت و کردا ر کے درج ذیل پہلو ؤں پر تو جہ ضروری ہے ۔
۱۔انسانی کرامت کی پہچان
خدا نے انسان کوخصوصی اہمیت وکرامت عطا فر ما ئی ہے اور وہ یہ کہ اسے زمین میں اپنا خلیفہ قرار دیا ہے،(۱)اور اس سے بڑھ کر عزت و شر ف اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا وندتعالیٰ حدیث ِقدسی میں ارشاد فرماتا ہے: ’’یابن آدم خلقت الاشیاء لا جلک و خلقتک لا جلی‘‘
اے بنی آدم ؑمیں نے سب چیزیں تمہا رے لیے خلق کی ہیں اور تجھے میں نے اپنے لئے خلق کیا ہے اور تمہا رے قلب کو اپنا گھر قراردیا ہے
لہٰذا خدا نے انسا ن کو جوکر امت بخشی ہے اور اس کے دل کو اپنا مسکن قرار دیا ہے(۲) تقاضا کر تی ہے کہ انسان اپنے دل کے اند ر غیرِخدا کو جگہ نہ دے اور نہ اپنے مقا صد دینیہ میں کسی کو خدا کا شریک قرار دے ۔
۲۔ریا کاری کے نقصا ن کو پہچاننا چاہیے کہ کس طرح یہ دل کوسیا ہ کر دیتی ہے اور اصلا ح و تربیت نفس کی تو فیق کو سلب کر تے ہوئے اس کے اعما ل کو تبا ہ کر دیتی ہے اور انہیں جہنم کی آگ میں بدل دیتی ہے، جب انسان کا پہلی دفعہ ریا کاری سے وا سطہ پڑتا ہے تو اسے شیطا ن اور اپنے نفس کے قدموں کے نشان صاف ملتے ہیں اور وہ غورو فکر سے یہ با ت جا ن لیتا ہے کہ نفسا نی خواہشات عقل پر غفلت کے پر دے ڈالنے کے لئے میدا ن عمل میں وا رد ہو چکی ہیں تا کہ اس سے فا ئدہ اٹھا سکیں۔
یہ استفادہ کو ئی دائمی توہے نہیں بلکہ صرف وہم و خیا ل کو راضی کر سکتا ہے لہٰذا عقل حکم لگاتی ہے کہ آدمی کو ایسے فا ئدے اور لذت کے پیچھے جا نا چاہیے کہ جو دا ئمی ہو اور وہ خدا کی اطاعت میں مضمرہے، لہٰذا انسان کو شیطا ن کے وسوسوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ہویٰ و ہوس کی پیروی سے بچنا چا ہیے۔
۳۔یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چا ہیے کہ لوگوں سے منصب ومقام ما نگنا ضرو رت مندوں پر اپنی حاجت کوظاہرکرنا ہے کیونکہ وہ سب تو خود خدا کی با رگا ہ میں محتاج ہیں ،لہٰذا ان کے نزدیک مقام و منزلت کاکیا فا ئدہ ہو گا؟حکم دیا گیا ہے کہ واجب نما زوں کی تعقیبات میں یہ آیت پڑھی جائے ۔
قُلِ اللَّہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِیَدِکَ الْخَیْْرُ إِنَّکَ عَلَیَ کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر(۳)
اس آیت کا خلا صہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری کا ئنا ت کا ما لک ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے اس ملک میں سے دیتا ہے ،جسے چاہتا ہے نہیں دیتا اور اگر چاہے تو اپنا دیا ہو وا پس بھی لے سکتا ہے جسے چا ہے عزت دیتا ہے ،جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، سب خیر و نیکی اسی کے ہا تھ میں ہے وہ ہر چیز پر قا در ہے ،اس آیت کو واجب نما زوں کے بعد پڑھنے کے اسرا رمیں سے ایک راز یہ ہے کہ انسان اس کے مضمو ن میں غوروفکر کر کے صرف با ر گاہ خدا سے امید یں وابستہ ہے اور لوگوں سے اپنی امید توڑ لیتا ہے ،اسے علم اخلا ق والے ’’انقطا ع عن الخلق ‘‘ یا’’انقطاع الی اللہ ‘‘کہتے ہیں، پس کلی طور پر لوگوں سے قطع امید کر کے خدا سے لو لگا نی چاہیے ۔
۴۔ اخروی نعما ت اور معنو ی مرا تب پر تو جہ کی جا ئے اورزا ئل ہو نے والی متا ع دنیاسے بے توجہی و بے اعتنا ئی بڑھنا بھی ریا کی جڑ یں کا ٹنے میں بہت مفید ہے، قرآن میں ارشا د ہے
وَلَلدَّارُالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (۴)
بے شک آخر ت کاگھر متّقیوں کے لئے بہت بہتر ہے کیا اس میں غور نہیں کرتے ۔
آخر میںچند نکا ت کی یا د آوری ضروری ہے ۔
پہلا : ریا ختم کر نے کے لئے ضروری نہیں کہ انسان خو د کو لوگو ں کے سامنے گناہ گا ر شخص کی صورت میں پیش کر ے ،یہ کا م خدا کو پسندنہیں ہے ،اللہ تعالیٰ چا ہتا ہے کہ اس کے مو من بندے کی عزت و آبر و لوگوں میں محفو ظ رہے، اگر اس سے غلطی ہو ئی بھی ہے تواسے لوگوں میں رسوا نہیں ہو نا چاہیے ہاں بندے کو خد اکے ساتھ رابطہ بہتر و مضبوط کرنا چاہیے اور اپنی لغزش و گنا ہ سے تو بہ کر نا چاہیے اور ساتھ یہ عہد بھی کرے کہ آئندہ گنا ہ نہیں کرے گا اورا س کا م پر خدا سے مدد طلب کر ے ۔
دوسر ا: انسان کو ریا کے خو ف سے عبا دات اور نیکیوں کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے ،انسان کو نیک کاموں اور عبا دات سے روکنے کا شیطا ن کے پا س ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے وسوسے اور جال انسان کی خصوصیات اور میلا نا ت کو دیکھ کر بنا تا ہے اس کے بعد عمل میں وا ر د ہو تاہے مثلا ً جب شیطا ن دیکھتا ہے کہ اس شخص کو عبا دت سے روکا نہیں جاسکتا تو پھر اس کی عباد ت کے با رے میں اس کے دل میں شک و شبہ پید ا کر دیتا ہے، وہ یہ وسوسہ پیدا نہیں کر تا کہ نماز نہ پڑھو وہ کہتا ہے تمہا ری یہ نما ز، صحیح نما ز نہیں ہے اس میں ریا کا ری ہو ئی ہے ،تا کہ اس طرح سے مو من کے دل میں اپنی نما ز و عبا دت کے بارے میںسوئظن پیدا ہوجا ئے، اگر شیطا ن اس کا م میں کامیاب ہو جا ئے تو انسان میں آہستہ آہستہ عبادت کی رغبت ختم ہو جا تی ہے اور با لا ٓخروہ اس عبادت کو چھوڑ دیتا ہے، مومن کے پاس اس کا مقا بلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ریا کا ری کے وسوسے کواپنے دل سے نکا ل دے، رسول خدا ؐ اس بارے میں فرماتے ہیں ــ:
اذ لقی الشیطا ن احد کم وھو فی صلاتہ فقال انک مراء فلیطل صلوتہ مابد الہ ما لم یفتہ وقت فریضۃ ، واذا کا ن شئی من امر الآخرۃ فلیتمکث مابد الہ واذا کان علی شئی من امر الدنیا فلیبرح(۵)
اگر تم میں سے کو ئی نما ز پڑھ رہا ہو اور شیطا ن اس کے پا س آکر کہے تم ریا کر رہے ہو ، تو جتنا ہو سکے اپنی نما ز کو لمبا کر و بشرطیکہ وقت ِ نما ز فریضہ نہ نکل جا ئے اور اگر کو ئی دوسرا نیک کا م کر رہے ہواور شیطا ن یہ بات کہے تو اسے جتنا لمبا کر سکتے ہو کر و اور اگر دنیاوی کام کر رہے تو اسے چھوڑ دو۔(۶)
تیسرا : بعض عبا دات تو ہیں ہی ایسی جو ظاہر اور دوسروں کے سامنے انجا م دی جا تی ہیں جیسے نما ز جما عت و جہا د وغیرہ اور قرآن نے مو منین کی ایک صفت یہ ذکر کی ہے کہ وہ ظاہر و آشکار اور مخفی طور پر راہ خدا میں انفا ق کر تے ہیں،(۷)لہٰذا عباد ت کو چھپا کر کر نے کی پا بندی کے با وجود خو د عبا دت کی شر ائط بھی دیکھنا ضروری ہیں ،جن اعما ل کو ظاہر وآشکا ر انجا م دینا ضروری ہے انہیں خالص نیت کے ساتھ خدا سے مدد طلب کر تے ہو ئے اس طرح انجا م دے۔

(حوالہ جات)
(۱)بقر ہ / ۳۰
(۲)شرح ا سماء الحسنیٰ ،ملاھادی سبز واری ( قم بصیرتی)ج۲
(۳) آل عمران / ۲۶
(۴)انعا م / ۳۲
(۵)بحا ر الانو ار ج ۶۹/ ۲۹۵ ، میز ان الحکمۃ چہا ر جلدی ج۲ ص۱۰۲۱
(۶) مزید تفصیلا ت کے لئے دیکھیں عجب وریا،سید احمد ، فہری
(۷) رعد / ۲۲فاطر /۲۹نمل/۷۵

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button