تواضع اور انکساری
(۱)’’فی وصیایا النبی ﷺ لامیر المومنین علیہ السلام:
يا علي : والله لو أن الوضيع في قعر بئر لبعث الله عزوجل إليه ريحا ترفعه فوق الأخيار في دولة الأشرار ‘‘
نبی کریمﷺ نے حضرت علیؑ کو جو وصیتیں فرمائی تھی ان میں ایک یہ تھی:
یاعلیؑ!انکساری سے پیش آنے والاشخص کنوئیں کی گہرائی میں ہی کیوں نہ پڑا ہو تب بھی اللہ اس کے لیے اپنی رحمت کی ہوا چلائے گا جو اسے ظالموں کی حکومت میں ممتاز لوگوں سے بھی بلند رکھے گا۔
(۲)’’قال عيسى بن مريمؑ للحواريين :
لي إليكم حاجة اقضوها لي ، فقالوا : قضيت حاجتك يا روح الله ، فقام فغسل أقدامهم ، فقالوا : كنا أحق بهذا منك ، فقال : إن أحق الناس بالخدمة العالم إنما تواضعت هكذا لكيما تتواضعوا بعدي في الناس كتواضعي لكم ، ثم قال عيسىؑ: بالتواضع تعمر الحكمة لا بالتكبر ، وكذلك في السهل ينبت الزرع لا في الجبل ‘‘
حضرت عیسیٰؑ بن مریمؑ نے اپنے حوارویوں سے فرمایا:
تم سے مجھے ایک ضروری کام ہے،حواریوں نے کہا: ہم آپؑ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے،آپؑ اٹھے اور ان سب کے پائوں دھوئے،حواریوں نے کہا:اے اللہ کے نبیؑ! ہم اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ آپ ؑکے پائوں دھوتے،(آپ نے یہ کیا زحمت فرمائی؟) حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:عالم کے لیے زیادہ مناسب ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کرے اس لیے میں نے تمہارے پائوں دھوئے ہیں تاکہ تم بھی میرے بعد لوگوں کے اسی طرح پائوں دھوئو،(عالم کو چاہیے کہ انکساری کی ابتدا اس کی طرف سے ہو،میرے بعد تم بھی میری طرح انکساری کا خیال کرنا)پھر آپؑ نے فرمایا:انکساری پر ہی دانش و حکمت کی بنیادرکھی جاسکتی ہے،تکبر سے نہیں کیونکہ اچھی فصل نرم زمین میں اگتی ہے سخت پہاڑ پر نہیں۔
(۳)’’علی علیه السلام فرمود:
وَاعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَى رُءُوسِكُمْ وَإِلْقَاءَ التَّعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ وَخَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِكُمْ وَاتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَةً بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّكُمْ إِبْلِيسَفلو رخص الله فی الکبر لأحد من عباده لرخص فیه لخاصة أنبیائه و أولیائه؛ ولکنه سبحانه کره الیهم التکابر، و رضی لهم التواضع، فألصقوا بالأرض خدودهم، و عفروا فی التراب وجوههم. و خفضوا أجنحتهم للمؤمنین‘‘
ہمارے آقا و مولاحضرت علیؑ نے فرمایا:
انکساری کا تاج اپنے سر پر سجائو،تکبیر کو پیروں تلے روند دو،اپنی گردنوں سے تکبر کا سریا نکال دو اور اپنے دشمن شیطان اور اس کی فوج کے درمیان عاجزی اور انکساری کا مورچہ قائم کرو، اگر خدا اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی تکبر کی اجازت دیتا تو وہ اپنے چنیدہ انبیاء و اولیاء کو اس کی اجات دیتا مگر اس نے ان کو تکبر سے بیزار ہی رکھا اور ان کے لیے عاجزی کو پسند کیا، اس لیے انہوں نے اپنے رخسار زمین سے پیوستہ اور چہرے خاک آلود رکھے اور مومنین کے آگے فروتنی سے جھکتے رہے۔
(۴)’’عن جابر ابن عبداللہ علیہ السلام قال:
عن الإمام أبي عبدالله الصادقؑ قال: مرّ علي بن الحسين‘ على المجذومين وهو راكب حماره وهم يتغدّون فدعوه إلى الغداء فقال: لولا أني صائم لفعلت، فلما صار إلى منزله أمر بطعام فصنع وأمر أن يتنوقوا فيه فتغدّوا عنده وتغدّى معهم‘‘
امام جعفر صادقؑ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ امام زین العابدینؑ جذمیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزرے،اس وقت آپؑ گدھے پر سوار تھے،جذامی کھانا کھا رہے تھے،انہوں نے آپؑ کو کھانا کھانے کی دعوت دی،آپؑ نے فرمایا:اگر میرا آج روزہ نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ ضرور کھانا کھاتا،جب آپؑ گھر پہنچے تو آپ ؑنے ان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرایا اور انہیں دعوت دی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر آپ ؑنے بھی کھانا تناول فرمایا۔
(۵)’’عن جابر ابن عبداللہ علیہ السلام قال:
إِنَّ مِنَ التَّوَاضُعِ أَنْ يَرْضَى الرَّجُلُ بِالْمَجْلِسِ دُونَ الْمَجْلِسِ وَ أَنْ يُسَلِّمَعَلَى مَنْ يَلْقَى وَ أَنْ يَتْرُكَ الْمِرَاءَ وَ إِنْ كَانَ مُحِقّاً وَ لَا يُحِبَّ أَنْ يُحْمَدَ عَلَى التَّقْوَى‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
تواضع کی علامت یہ ہے کہ تم محفل میں جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھنے پر راضی رہو اور ہر ملنے والے کو سلام کرو اور تم حق پر ہونے کے باوجود بحث اور جھگڑے سے گریز کرو اور تمہیں اپنی پرہیزگاری کی تعریف سننا پسند نہ ہو۔
(حوالہ جات)
(من لا یحضرہ الفقیہ ج۴،ص۳۶۲)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۷۶)
(نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۰)
(کافی ج۲،ص۱۲۳)
(کافی ج۲،ص۱۲۲)