حکایات و روایاتکتب اسلامی

اللہ کے لیے خلوص

(۱)’’ عن أبي جعفرؑ قال:
ما أخلص العبد الايمان بالله عز وجل أربعين يوما أو قال: ما أجمل عبد ذكر الله
عز وجل أربعين يوما إلا زهده الله عز وجل في الدنيا وبصره داءها ودواءها فأثبت الحكمة في قلبه وأنطق بها لسانه، ثم تلا: ” إن الذين اتخذوا العجل سينالهم غضب من ربهم وذلة في الحياة الدنيا وكذلك نجزي المفترين ” فلا ترى صاحب بدعة إلا ذليلا ومفتريا على الله عز وجل وعلى رسولهﷺ وعلى أهل بيته (صلوات الله عليهم) إلا ذليلا‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
جو شخص چالیس دن اللہ پر خالص ایمان رکھے یا جو شخص چالیس دن تک اچھے طریقے سے خدا کا ذکر کرتا رہے تو اللہ اسے دنیا میں زہد عطا کردیتا ہے اور اسے دنیا کے درد اور دوا سے آگاہ کردیتا ہے اور اس کے دل کو حکمت سے مستحکم کردیتا ہے اور اس کی زبان پر حکمت جاری کرتا ہے،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:’’اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِـجْلَ۔۔۔‘‘جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے،جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں(سورہ اعراف:آیت۱۵۲)آپ ؑنے فرمایا:یہی وجہ ہے کہ تم بدعتی کو ہمیشہ ذلیل و خوار دیکھو گے اور اللہ ،رسولؐ اور اہل بیتؑ پر افترا پردازی کرنے والاذلیل ہو کر رہتا ہے۔
(۲)’’عن أبي عبد الله ؑ في قول الله عز وجل: ” ليبلوكم أيكم أحسن عملا ” قال:
ليس يعني أكثر عملا ولكن أصوبكم عملا وإنما الإصابة خشية الله والنية الصادقة والحسنة ثم قال: الابقاء على العمل حتى يخلص أشد من العمل، والعمل الخالص: الذي لا تريد أن يحمدك عليه أحد إلا الله عز وجل والنية أفضل من
العمل، ألا وإن النية هي العمل، ثم تلا قوله عز وجل: ” قل كل يعمل على شاكلته ” يعني على نيته‘‘
امام جعفر صادقؑ نے ’’لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔۔۔‘‘تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر عمل کس کا ہے(سورہ ملک:آیت۲)کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ نے کثرت عمل کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس نے حس عمل کا مطالبہ کیا ہے اور حسن عمل خوف خدا،سچی نیت اور نیکی سے عبارت ہے،پھر آپؑ نے فرمایا:کسی عمل پر ثابت قدم رہنا یہاں تک کہ وہ خالص ہوجائے عمل سے زیادہ مشکل ہے اور خالص عمل یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ اس عمل پر کسی سے تعریف کی امید نہ رکھی جائے اور نیت،عمل سے افضل ہے بلکہ نیت ہی عین عمل ہے،پھر آپ ؑنے یہ آیت پڑھی:’’قُل کُلّ یعمل عَلی شاکِلَتِه‘‘کہہ دو کہ ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔(سورہ بنی اسرائیل:آیت۸۴)اس آیت میں لفظ’’ شاکِلَتِه‘‘سے مراد نیت ہے۔
(۳)’’عن سفيان بن عيينة قال سألته ابا عبداللہ علیہ السلام عن قوله الله عز وجل ” إلا من أتى الله بقلب سليم ” قال:
القلب السليم الذي يلقى ربه وليس فيه أحد سواه، قال: وكل قلب فيه شرك أو شك فهو ساقط وإنما أرادوا الزهد في الدنيا لتفرغ قلوبهم للآخرة‘‘
سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے ’’اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ‘‘مگر جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہو(سورہ شعراء:آیت۸۹)کا مطلب پوچھا تو آپ ؑ نے فرمایا:
قلب سلیم وہ صاف ستھرا دل ہے جو اللہ کے حضور اس طرح پیش ہو کہ اس میں اللہ کے سوا کچھ نہ ہو اور ہر وہ دل جس میں شرک یا شک ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، اللہ نے دنیا میں زہد کا اسی لیے حکم دیا تاکہ انسان کا دل دنیا کی گندگی سے پاک صاف ہو اور آخرت کے لائق ہو۔
(۴)’’عن اسماعیل بن یسار قال سمعت عن ابی عبداللہ علیہ السلام یقول:
اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَحيمُ يَشْكُرُ الْقَليلَ اِنَّ الْعَبْدَ لَيُصَلّى الرَّكْعَتَيْنِ يُريدُ بِها وَجْهَ اللّهِ فَيَدْخُلُهُ اللّهُ بِهِ الْجَنَّةِ وانہ لیتصدق بالدرھم یریدبہ وجہ اللہ فید خلہ اللہ بہ الجنۃ‘‘
اسماعیل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ کو فرماتے سنا:
تمہارا رب بڑا ہی مہربان اور قدر دان ہے،اگر کوئی دو رکعت نماز خالص خدا کی رضا کے لیے پڑھتا ہے تو خدا ان دو رکعتوں کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کردیتا ہے اور ایک شخص صرف خدا کی رضا کے لیے ایک درہم صدقہ دیتا ہے تو خدا اسے اس کے بدلے میں جنت عطا کرتا ہے۔
(۵)’’عن أبي عبد الله ؑ قال:
من أراد الله عز وجل بالقليل من عمله أظهر الله له أكثر مما أراد، ومن أراد الناس بالكثير من عمله في تعب من بدنه وسهر من ليله أبى الله عز وجل إلا أن يقلله في عين من سمعه‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:جو قلیل عمل بھی خالص خدا کے لیے انجام دے تو خدا اس تھوڑے سے عمل کو بھی بڑا عمل کر کے دکھائے گا اور جو لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کی کثرت سے اپنے آپ کو تھکائے اور رات بھر عبادت کرتا رہے تو خداریاکار کا یہ عمل دیکھنے والے کو کم ترین کر کے دکھائےگا۔
(۶)’’عن ابی الحسن الرضاؑ ان امیرالمومنین علیہ السلام کان یقول:
طُوبیٰ لِمَن اَخلَصَ للہ العِبَادَةُ وَ الدُّعَائَ ولم یشغل قلبہ بما تریٰ عیناہ ولم ینس ذکر اللہ بما تسمع اذناہ ولم یحزن صدرہ بما اعطی غیرہ‘‘
امام علی رضا علیہ السلام کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنینؑ نے فرمایا:
’’خوش نصیب ہے وہ شخص جو خلوص سے اللہ کی عبادت کرے اور اس سے دعا مانگے اور آنکھوں دیکھی چیزوں سے دل نہ لگائے اور سنی سنائی باتوں کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوجائے اور دوسروں کو ملنے والی نعمتوں کو دیکھ کر دکھی نہ ہو۔

(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۱۶)
(کافی ج۲،ص۱۶)
(اصول کافی ج۲،ص۱۶)
(محاسن برقی ج۱،ص۲۰۴)
(کافی ج۲،ص۲۹۶)
(اصول کافی ج۲،ص۱۶)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button