اسلامی حکومت اور وقت کے تقاضے
سوال۲۶:اسلامی حکومت اوراسلامی حکمرانوںاورتفکراسلامی(متون وروایات)کے درمیان اختلاف کی صورت میں کس کو فوقیت حاصل ہو گی ؟ کیا ضرورتیں اور تقاضے اسلامی حکمرانوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ضرورت کے پیش ِ نظرعملی میدان میں تفکّرِاسلامی کے برخلاف عمل کریں ؟
اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تفکر اسلامی سے کیا مرادہے،یہاں پر چند احتمال دیئے جا سکتے ہیں ۔
الف:تفکر اسلامی سے مراد اسلامی نظریہ کائنات اور عقائد ہیں ، اس صورت میں اسلامی حکومت اورحکمران کسی طرح بھی تفکّر دینی کے خلاف عمل نہیں کر سکتے اور کوئی بھی مجبوری تفکّردینی کو تحت الشعاع قرارنہیں دے سکتی۔
ب:تفکّرِدینی کا مطلب سیاسی اور اجتماعی میدان میں دین کے احکام اولیہ کا مجموعہ ہے،اس صورت میں اگر کوئی اہم اجتماعی ضرورت یا مصلحت پیش آئے تو اسلامی حکومت ، حکم اوّلی کو وقتی طورپرمعطل کر سکتی ہے اورحکومتی آڈرجاری کرے گی یااضطراری ثانویہ حکم کانفاذ کرے گی،البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ تفکّرِدینی سے مذکورہ معنی مراد لینا درست نہیں ہے، اس سے تفکر اسلامی اور حکومتی احکام کے درمیان تصادم اور تعارض کا اندیشہ ہوتا ہے،حالانکہ احکام ثانویہ اور حکومتی احکام بھی تفکر دینی کے تابع ہیں لہٰذا دین پر کسی چیز کی بالا دستی قابل تصور نہیں ۔
ج:تفکرینی کا مطلب احکام اولیہ ،ثانویہ اورحکومتی احکام ہیں، لہٰذا اس احتمال کی روشنی میں تفکّرِ دینی اور حکومتی احکام کے درمیان ٹکرائو معنی نہیں رکھتا مگریہ کہ حکومت اہم اوراہم ترین،اجتماعی مصلحتوں اور ضرورتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احکام اولیہ کے بر خلاف کوئی حکم صادر کرے یاآڈرجاری کرے،ایسی صورت میں مخالفت کاارتکاب ہواہے اوراس نے دینی حکومت ہونے سے در حقیقت انحراف کیا ہے ۔
واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں دینی فکر غالب ہو گی اور اُسے ترجیح دی جائے گی ۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے ۔(۱) اسلامیہ جمہوریہ میںولایت فقیہ اور شوریٰ نگہبان جیسے اداروں کی موجودگی اہم ترین مقصد اسی قسم کے نقصانات سے بچائو ہے ۔
چار: تفکّرِدینی سے مقصود دینی متون اورنصوص ہیں(جیساکہ سوال کی عبارت میں بھی آیاہے)تفکّرِ دینی کی یہ تعریف بالکل غلط ہے کیونکہ تفکّرِدینی عقلی اور نقلی دونوں قسم کے دلائل کا مرکب ہے۔
بعض نقلی دلائل بھی احکام حاکمہ اور کنٹرول کرنے والے (جیسے قاعدہ لاضررلاحرج اوراہم و مہم) احکام پرمشتمل ہیں اوربَعض احکام ِمحکومہ پرمشتمل ہیں۔
اسلامی حکومت بوقت ضرورت اور اہم ترین مصلحت کے ہوتے ہوئے احکام حاکمہ کوبروئے کارلاتے ہوئے احکامِ محکومہ کیخلاف حکم اورآڈر جاری کر سکتی ہے،اس بناء پرایسے مواردکو حکومت ِاسلامی اور تفکّرِ دینی کے درمیان تعارض اور تصادم کا مصداق قرار نہیںدیاجا سکتا،اس بارے میں چند دیگر نکات کی طرف بھی توجہ لازمی ہے ۔
اسلامی تفکّریااسلامی حکومت کاحقیقی عصری ضرورتوں اورتقاضوں سے ٹکرائوبالکل ناقابل تصورہے ، کیونکہ دین یادینی حکومت بھی انسانی ضرورتوں کی مخالفت نہیں کرتی،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ہرضرورت کے سامنے دین کا دو طرح کا موقف تصورکیاجاسکتا ہے ۔
۱۔اس ضرورت کے بارے میں سکوت اختیار کرے اور اُسے پورا کرنا خود لوگوں کے ذمے کر دے اس صورت میں معاشرہ ہر طرح کے راہ حل کا انتخاب کر سکتا ہے ، البتہ جب بعض راہ حل دینی تعلیمات کے برخلاف ہوں تو اس صورت میں ایسے راہ حل تلاش کرنے چائیں جو دینی تعلیمات سے معارض نہ ہوں، اگر ایسا راہِ حل موجود نہ ہو تو پھرایسا طریقہ اختیارکیاجائے جس کا ٹکراؤکمترہو۔
۲۔دین کے پاس اس کا راہِ حل موجود ہو،اس صورت میں دو فرض ہو سکتے ہیں ۔
الف:راہ حل ایسا ہے جو ضرورت اور اس کی شرائط کے مطابق ہے لیکن اس پر عمل درآمد کسی مشکل کا سبب بنتا،اس فرض میں اسلامی حکومت اُسے قبول کرتی ہے یا نہیں ۔
پہلی صورت میں تو کوئی تصاد م اور تعارض نہیں ہے ، دوسری صورت میں دین اور دینی حکومت میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ، اس حالت میں دین کا حکم ترجیح رکھتا ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں ہے ۔
ب:بعض دلائل کی بناء پر موجودہ راہ حل قابل عمل نہیںہے اور اہم اجتماعی مفادات کے ضائع ہونے کا سبب ہے،اس صورت میں دین کے حکم کے مطابق’’ولی امر‘‘کی تشخیص پر اہم مفادات کو ترجیح دی جائے گی،چونکہ یہاں پر ترجیح دین کے حکم کے تحت ہے اس لیے یہاں ٹکرائو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
(حوالہ)
(۱) ’’لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ‘‘ ، نہج البلاغہ ، حکمت ۱۶۵