صوفیہ کی مذمت
(۱)’’عن احمد بن محمد بن أبي نصر البزنطي، ومحمد بن اسماعيل بن بزيع ، عن الرضا عليه السلام، انه قال: ” من ذكر عنده الصوفية ولم ينكرهم بلسانه وقلبه، فليس منا، ومن أنكرهم، فكأنما جاهد الكفار بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم‘‘
احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی اور محمد بن اسماعیل بن بزیع بیان کرتے ہیں کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:جس کے سامنے صوفیہ کا تذکرہ کیا جائے اور وہ اپنے زبان و دل سے ان کی مخالفت نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو ان کی مخالفت کرے تو گویا اس نے رسول اکرمﷺ کی معیت میں کافروں سے جہاد کیا ہے۔
(۲)’’ وعن أبي نصر البزنطي، عن الرضا عليه السلام، انه قال: ” قال رجل من اصحابنا للصادق جعفر بن محمد عليهما السلام: قد ظهر في هذا الزمان قوم يقال لهم: الصوفية، فما تقول فيهم ؟ قال: انهم اعداؤنا، فمن مال فيهم فهو منهم، ويحشر معهم، وسيكون اقوام يدعون حبنا، ويميلون إليهم، ويتشبهون بهم، ويلقبون انفسهم ، ويأولون أقوالهم، الا فمن مال إليهم فليس منا، وأنا منهم براء، ومن أنكرهم ورد عليهم، كان كمن جاهد الكافر بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم‘‘
بزنطی امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:امام جعفر صادقؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے خدمت امام میں عرض کیا:مولا! اس دور میں صوفیہ کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے،آپؑ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ امام صادقؑ نے فرمایا: وہ ہمارے دشمن ہیں،جو بھی ان کی طرف مائل ہو وہ انہی میں سے ہے اور وہ قیامت میں ان کے ساتھ محشور ہوگا اور عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہماری محبت کا دم بھریں گے مگر وہ صوفیہ کی طرف مائل ہوں گے اور ان کے چال چلن اپنائیں گے اوران کے لقب اختیار کریں گے،ان کی باتوں کی تاویل کریں گے،آگاہ رہو جو بھی ان کی طرف مائل ہوا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور ہم اس سے بیزار ہیں اور جو ان کا انکار اور ان کی تردید کرے اس نے گویا رسول خدا ﷺ کے ساتھ کفار سے جہاد کیا۔
(۳)’’عن السيد المرتضى الرازي، بإسناده عن الشيخ المفيد، عن أحمد بن محمد بن الحسن بن الوليد، عن أبيه محمد بن الحسن، عن سعد بن عبد الله، عن محمد بن عبد الله، عن محمد بن عبد الجبار، عن الامام الحسن العسكري ؑ، أنه قال لابي هاشم الجعفري: ” يا أبا هاشم، سيأتي زمان على الناس وجوههم ضاحكة مستبشرة، وقلوبهم مظلمة متكدرة، السنة فيهم بدعة، والبدعة فيهم سنة، المؤمن بينهم محقر، والفاسق بينهم موقر، أمراؤهم جاهلون جائرون، وعلماؤهم في أبواب الظلمة ( سائرون)، أغنياؤهم يسرقون زاد الفقراء، وأصاغرهم يتقدمون على الكبراء، وكل جاهل عندهم خبير، وكل محيل عندهم فقير، لا يميزون بين المخلص والمرتاب، لا يعرفون الضأن من الذئاب، علماؤهم شرار خلق الله على وجه الارض، لانهم يميلون إلى الفسلفة والتصوف، وأيم الله إنهم من أهل العدول والتحرف، يبالغون في حب مخالفينا، ويضلون شيعتنا وموالينا، إن نالوا منصبا لم يشبعوا عن الرشاء، وإن خذوا عبدوا الله على الرياء، ألا إنهم قطاع طريق المؤمنين، والدعاة إلى نحلة الملحدين، فمن أدركهم فليحذرهم، وليصن دينه وإيمانه، ثم قال: يا أبا هاشم هذا ما حدثني أبي، عن آبائه جعفر بن محمدؑ، وهو من أسرارنا، فاكمته إلا عن أهله‘‘
سید مرتضی رازی اپنی اسنادسے امام حسن عسکریؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑنے ابو ہاشم جعفری سے فرمایا:
لوگوں پر عنقریب ایسا زمانہ آنے والاہے کہ ان کے چہرے خوشی سے چمکتے دمکتے ہوں گے جبکہ ان کے دل کالے،بے چین ہوں گے،ان کی نظر میں سنت بدعت اور بدعت سنت ہوگی،اس دور میں مومن کو ذلیل سمجھا جائےگا اور فاسق قابل احترام ہوں گے،ان کے حکمران ظالم ہوں گے اور علماء ظالموں کے درباری ہوںگے،ان کے دولت مند غریبوں اور ان کے بچوں کی روزی روٹی چوری کریں گے اور ان کے چھوٹے بچے بھی دوسرے بزرگوں پر مقدم ہوں گے،ان کی نظر میں جاہل،علامہ اور ہر بازیگر فقیر ہوگا۔
ان میں مخلص اور حد سے بڑھنے والے کا کوئی فرق نہیں ہوگا اور ان میں بھیڑ اور بھیڑیے کی کوئی تمیز نہ ہوگی،ان کے عالم زمین پر بسنے والوں میں سے بدترین لوگ ہوں گے کیونکہ وہ فلسفہ اور تصوف کی طرف راغب ہوں گے،خدا کی قسم!یہ لوگ بغض وکینہ سے بھرے ہوں گے اور ہمارے دشمنوں سے گہری دوستی رکھیں گے اور ہمارے شیعوں اور دوستوں کو گمراہ کریں گے اور اگر انہیں کوئی منصب مل جائے تو وہ رشوت سے سیر نہ ہوں گے اور جب ان کے پاس کچھ نہ ہوگا تو ریاکاری کے لیے عبادت کریں گے،ہوشیار خبردار رہو! یہ مومنین کےلیے رہزن ہیں اور ہمیشہ لوگوں کو بے دینی کی دعوت دیتے رہتے ہیں، مومنین کو چاہیے کہ ان سے بچیں اور اپنے دین و ایمان کو ان سے محفوظ رکھیں،پھر آپ نے فرمایا: ابوہاشم!میں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ میرے آباء واجداد نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کیا ہے اور یہ ہمارا راز ہے،نااہل لوگوں سے اسے پوشیدہ رکھو۔
(۴)’’السید مرتضی الرازی عن محمد بن الحسین بن ابی الخطاب قال کنت مع الھادی علی بن محمد علیھما السلام فی مسجد النبی فاتاہ جماعۃ من اصحابہ منھم ابوھاشم الجعفری وکان رجلا بلیغا وکانت لہ منزلۃ عظیمۃ عندہ ثم دخل المسجد جماعۃ من الصوفیۃ وجلسوا جانب مستدبرا واخذو بالتھلیل فقال لا تلتقتوا الی ھؤلاء الخذ عین فانھم حلفاء الشیاطین ومخربوا قواعدالدین یتزھدون لراحۃ الاجسام ویتھجدون لتصید الانعام یتجوعون عمرا حتی یدیخوا للایکاف حمرا لا یھللون الا لغرور الناس ولا یقللون الغذاء الا لملا العاس واختلاس قلب الدفناس یتکلمون الناس باملائھم فی حب ویطرحونھم بادا لیلھم فی الجب اورادھم الرقص والتصدیۃ واذکارھم الترنم والتغیۃ فلا یتبعھم الا السفھاء ولا یعتقد بھم الا الحمقاء فمن ذھب الی زیارۃ احدمنھم حیا ومیتا فکانما ذھب الی زیارۃ الشیطان وعبدۃ الاوثان ومن اعان احدا منھم فکانما اعان یزید و معاویۃ وابا سفیان فقال رجل من اصحابہ وان کان معترفا بحقوقکم قال فنظر الیہ شبہ المغضب وقال دع ذاعنک من اعترف بحقوقنا لم یذھب فی عقوقنا اما تدری انھم اخس طوائف الصوفیۃ واصوفیۃ کلھم من مخالفینا و طریقتھم مغائرۃ لطریفتنا وان ھم الا نصاری و مجوس ھذہ الامۃ اولئک الذین یجھدون فی اطفاء نور اللہ یتم نورہ ولو کرہ الکافرون‘‘
سید مرتضیٰ رازی محمد بن حسین بن ابی خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ میں مسجد نبویؐ میں امام علی نقیؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپؑ کے چند اصحاب مسجد میں داخل ہوئے جن میں ابوہاشم جعفری بھی تھے،ابو ہاشم فصیح اللسان شخص تھے اور امام ان کا بہت احترام کرتے تھے،ان کے بعد صوفیہ کا ایک گروہ مسجدمیں داخل ہوا اور ایک کونے میں حلقہ بنا کرلَا إِلَٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کا ورد کرنے لگا،امام علی نقیؑ نے فرمایا:
’’ان مکاروں کی طرف نہ دو،یہ لوگ شیاطین کے بھائی بند اور دین کی بنیادوں کو منہدم کرنے والے ہیں،یہ مادی فائدے کے لیے زہد اختیار کئے بیٹھے ہیں، یہ لوگ حیوان صفت افراد کو شکار کرنے کے لیے شب زندہ دار کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور یہ خُر صفت لوگوں پر زین کسنے کے لیے فاقہ کشی کرتے ہیں تاکہ انہیں لگام دے اچھی طرح ان پر سوار ہوسکیں،یہ لوگوں کو فریب دینے کیلئے ’’ذکر‘‘کرتے ہیں،یہ مکار صوفیہ اپنا کاسہ پر ُکرنے رکھنے کے لیے کھانے کم کھاتے ہیں اور لوگوں کو لوٹتے ہیں،یہ لوگوں سے دوستی اس لیے کرتے ہیں تاکہ انہیں اندھے کنوئیں میں دھکیل سکیں،ان کا درد رقص اور تالیاں بجانا ہے اور ان کا ’’ذکر‘‘ سُر بجانا اور گانا ہے،احمق ان کی پیروی کرتے ہیں اور نادان ان کے مرید ہوتے ہیں،جو کسی زندہ صوفی سے ملنے جائے یا مردہ صوفی کی زیارت کو جائےوہ ایسا ہے جیسے شیطان اور بت پرستوں سے ملنے گیا ہو اور جو صوفیہ کی مدد کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے یزید،معاویہ اور ابوسفیان کی مدد کی ہو،آپ ؑکے ایک صحابی نے پوچھا: مولا! اگرچہ وہ آپ ؑکے حق کا معترف ہی کیوں نہ ہو؟امام علی نقیؑ نے ناراض ہوکر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: اس بات کو جانے دو،بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے حقوق کا اعتراف کرنے والاہماری مخالفت کرے؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہےکہ صوفیہ ایک ذلیل گروہ ہے،تمام صوفیہ ہمارے مخالف ہیں،ان کا طریقہ ہمارے طریقے سے جدا ہے،یہ لوگ اس امت کے نصرانی اور مجوسی ہیں،یہ لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں جبکہ خدا اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گااگرچہ کافروں کو یہ بات ناگوار ہی گزرے۔
(حوالہ اجات)
(مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۳۲۳)
(مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۳۲۳)
(سیفۃ الحارج۲،ص۵۷،مستدرک الوسائل ج۱۱،ص۳۸۰)
(محدث عباس قمی،سفینۃ البحار ج۲،ص۵۸)