خدا کا سہارا سچا ہے
امام جعفرصادقؑ سے روایت ہے کہ جب حضرت یوسفؑ عزیز مصر کے حکم سے زندان میں ڈالے گئے تو خدا نے انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا،اسی دن دو نئے قیدی زندان میں لائے گئے،رات کو انہوں نے خواب دیکھااور کہا:اے یوسفؑ!ہم نے خواب دیکھے ہیں،آپ ان کی تعمیر بتائیں۔
ایک نے کہا:میں نے رات خواب میں دیکھا کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔
دوسرے نے کہا:میں نے دیکھا کہ میرے سر پر ایک ٹوکری ہے جس میں روٹیاں ہیں اور پرندے آکر اس میں سے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر کھا رہے ہیں۔
آپ ؑنے فرمایا:زندان کا کھانا آنے سے قبل میں تمہیں اس کی تعبیر بتادوں گا۔
پھر آپؑ نے قیدیوں کو دین حق کی تبلیغ کی اور خواب کی تعبیر میں فرمایا:جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں اسے پھانسی دی جائے گی اور پرندے اس کا بھیجا نوچ نوچ کر کھائیں گے اور جس نے اپنے آپ کو انگور نچوڑتے ہوئے دیکھا وہ رہا ہوجائے گا اور بادشاہ کا ساقی بنے گا۔
آپؑ نے جب یہ تعبیر بیان کی تو جس نے روٹیوں کا خواب دیکھا تھا ہنستے ہوئے کہنے لگا:میں نے تو یوں ہی مذاق کیا تھا،دراصل میں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا۔
حضرت یوسفؑ نے فرمایا:’’اب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ تو نے دیکھا ہے یا نہیں،اب میری زبان سے یہ الفاظ نکل چکے ہیں،یہ اللہ کا فیصلہ ہے اب ایسا ہوکر رہے گا جیسا کہ میں تجھے بتا چکا ہوں۔
پھر جس قیدی کی رہائی کی خبر آپؑ نے دی تھی اس سے فرمایا:جب تو رہا ہو کر بادشاہ کا ساقی بن جائے تو وہاں میرا بھی ذکر کرنا اور مجھے قید سے رہائی دلانا۔ قیدی نے وعدہ کرلیا،جب وہ آزاد ہوگیا اور بادشاہ کا ساقی بن گیا تو شیطان نے اسے حضرت یوسفؑ کو ذکر بھلا دیا،حضرت یوسفؑ مزید سات سال تک اس قید خانے میں قید رہے۔
ایک دن اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:اے یوسفؑ!باپ کے گھر میں تجھے خواب کس نے دکھایا تھا؟
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا:اے پروردگار!تو نے ہی خواب دکھایا تھا۔
پھر ارشادہوا:یعقوبؑ کے دل میں تیری محبت کس نے ڈالی تھی؟
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا:اے پروردگار!تو نے ڈالی تھی؟
پھر آواز آئی:جب بھائیوں نے تجھے کنوئیں میں پھینک دیا تو نجات کے لیے دعا تجھے کس نے سکھائی تھی؟
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا:خدایا:تو نے ہی دعا مجھے سکھائی تھی۔
پھراللہ تعالیٰ نے فرمایا:قافلے کو اس اندھے کنوئیں پر کون لایا تھا؟
حضرت یوسف ؑ نے عرض کیا:خدایا!تو ہی قافلے کو وہاں لایاتھا؟
آواز قدرت آئی:تجھے عزیز مصر کے گھر پناہ دینے والاکون تھا؟
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا:پروردگار!تو نے مجھے عزیز مصر کے گھر پناہ دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عزیز مصر کی بیوی کے شر سے تجھے کس نے بچایا اور چھوٹے بچے سے تیری پاکدامنی کی گواہی کس نے دلائی؟
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا:خدایا:تو نے ہی سب کچھ کیا۔
قدرت کی آواز آئی:اے یوسفؑ!تجھے قید خانے میں ،میں نے تو نہیں ڈالاتھا تو نے خود ہی ’’رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ‘‘کہہ کر مجھ سے قید خانے میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اگر تو قید سے تنگ آگیا ہے اور رہائی چاہتا ہے تو کیا تو مجھے نہیں کہہ سکتا تھا’’فكيف استغثت بغيري ولم تستغث بي وتسألني أن أُخرجك من السجن ‘‘ آخر تجھے کیا ضرورت پڑی تھی کہ مجھے چھوڑ کر دوسروں سے مدد مانگی اور کیا میں تجھے قید سے رہائی نہ دلاسکتا تھا؟
اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم مزید سات سال اسی قید میں رہو۔