نفسانی خواہشات کے وجود کی وجہ
سوال ۳:خدا وندتعالیٰ جا نتا ہے کہ اکثر لوگ شہو ت ، غضب اور جنسی خوا ہشات کے سامنے شکست کھا جا تے ہیں پھر اس نے انسا ن کے اند ر یہ خو ا ہشا ت کیوں رکھیں ؟ تا کہ وہ گناہ کریں ؟
وجودِخو اہشا ت کا فلسفہ
ہر نظام کے تا بع مقام میں زندگی مخصوص اہداف کے تا بع ہو تی ہے اور ان اہداف تک پہنچنے کے وسائل اسے حاصل ہو تے ہیں، پس معلو م ہوتا ہے کہ اس دنیا میں زندگی گذارنے، مختلف جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنے، دوستوں سے رابطہ کرنے اور دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے انسان کو مختلف قوتوں اور مخصو ص آلات کی ضرورت پڑتی ہے، شہوت، غضب خیال اور عقل وغیرہ جیسی قوتیں سب انسان کی زندگی گذارنے اور اس کے دوسروں کے ساتھ روابط کے حوالے سے خاص کردار ادا کرتی ہیں، اگر انسانی وجود کے تمام پہلوؤں پر جامع نظر ڈالی جائے اور اس کی خلقت کے ہدف، اس دنیا میں اس کی زندگی کی کیفیت اور آخرت کے ساتھ اس کے ارتباط کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان سب قوتوں اور خواہشات کا انسان میں وجود کتنا ضروری تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام کتنی دقت سے تشکیل دیا گیا ہے، انسان میں احساسات و غرائز دو طرح کی ہیں عالی اور حیوانی۔
۱: عالی غرائز و احساسات(انسان کے فطری امور)
جیسے خدا طلبی، کمال طلبی، فضیلت طلبی، عشق، عبادت، علم کی چاہت اور حقیقت کی طلب وغیرہ یہ قسم وہی ذاتی تمایلات ہیں جوانسان کو خلقت کے آخری ہدف کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، آدمی کی حقیقی اور اعلیٰ خودی کو نکھارتے ہیں اور انسان کی زندگی کو بامعنی بناتے ہوئے اسے عظمتوں سے روشناس کراتے ہیں، ان تمایلات کے بغیر انسان صرف ایک حیوان ہے اور اس کی زندگی بے معنی ہے۔(۱)
۲: حیوانی احساسات و تمایلات (ما دی میلا نات)
یہ میلا نات انسانی نسل و زندگی کی بقا ء میں بہت اہم کردارادا کر تے ہیں، دوسرے لفظوں میں اگر قوی خواہشا ت جیسے حبِّ ذات اور جنسی خواہشات نیز قوتِ غضب نہ ہوتیں تو انسان میں اپنی زندگی و نسل کی حفا ظت اور خطرات و نقصانات کو اپنی ذات سے دور کرنے کی نہ خو اہش ہوتی نہ کوشش، جس کا نتیجہ نسلِ انسانی کے اختتام کی صورت میں ظاہرہوتا، لہٰذا اگر اچھی طرح غورکر لیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ غرائز و خواہشات انسانی نسل کی بقاء واستمرار کے لئے اہم ترین مجریٰ و راستہ ہے، فیضِ خدا کے لئے، جب تک کہ خدا اس نسلِ انسانی کی بقاء کو چاہے گا۔
یہ خواہشات زندگی کو خوبصورت اور دلچسپ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان کے بغیر نہ زندگی میں دلچسپی ہو گی اور نہ عشق و خوبصورتی، کسی خوبصورت منظر کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا، خوشبودار پھولوں کو سونگھنا، ہنرکے نمونے تخلیق کرنا، خاندان کے افراد کے درمیان خالصانہ روابط و تعلقات، شوہر و زوجہ کے درمیان بے نظیر محبت اور ماں کابیٹے سے عشق و محبت کرنا، یہ سب خواہشات و غرائز ہیں جنھیں خداوندتعالیٰ نے انسان کی سرشت میں قرار دیا ہے تا کہ انسان اپنی ذمہ داری کو شوق و جذبے سے اور پوری دلچسپی سے انجا م دے۔
درحقیقت ان خو اہشات کے بغیر زندگی بالکل بے مزہ اور ناقابل برداشت ہو جائے گی، اس طرح شہوت و غضب جیسی مضبوط قوتوں کا ہونا انسان کی آزمائش و امتحان کا اہم ترین ذریعہ ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کمال و ترقی کے مدارج طے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان بشری امتحانوں کی طرح نہیں ہیں کہ جو انسان کی صلا حیتوں کو جاننے کے لئے ان سے لیے جا تے ہیں بلکہ اس امتحان کا مقصد انسان کی تربیت و پرورش ہے۔
علامہ شہیداستاد مطہری ؒلکھتے ہیںـ: اس بات پر توجہ رہنی چا ہیے کہ امتحا ن الٰہی انسان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو برملا کرنے کے لئے ہوتاہے اور صلاحیت وقابلیت کو ظاہر کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کی پرورش و تربیت کے ذریعے انہیں کمال بخشا جائے، یہ امتحان اس لئے نہیں ہوتا کہ کسی راز سے پردہ اٹھانا مقصود ہو بلکہ راز کی طرح مخفی قوتوں کو بیدارکرنا مقصود ہوتا ہے، پردہ اٹھانا یعنی ایجاد کرنا، امتحا نِ الٰہی انسانی صفات کو قوت و استعداد کے گوشوں سے نکال کر کمال کی حدوں تک پہنچاتا ہے یعنی امتحانِ خدا، وزن و مقدا ر کے تعیّن کی خاطر نہیں ہے بلکہ وزن کو زیادہ کرنے کے معنی میں ہے۔(۲)
دوسری طرف سے انسان تمام مخلوقاتِ خدا میں بالکل جدا خصوصیات رکھتا ہے اور وہ اختیاری کمال کی قابلیت ہے اور اختیاری تکامل کا لازمہ یہ ہے کہ راستے مختلف ہوں اور ان کے اختیار کرنے کا امکان پایا جاتا ہو۔
یا یوں کہہ لیں تکاملِ اختیاری صرف وہاں وجود پذیر ہوسکتا ہے کہ جہاں دو طرح کی دعوت پا ئی جا تی ہو جو ایک دوسرے کے ساتھ تضاد رکھتی ہو (اعلی میلا نا ت اور پست میلانات) اور انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ ہر ایک کو اختیار کر سکے، لہٰذا انسان کا کمال اختیاری ہے اور اختیاری اچھائی یا برائی صرف تب ہی ہو سکتی ہے کہ انسان کے اندر شہوت و غضب جیسی قوتیں موجود ہوں (کہ جن میں اچھا و برا دونوں کی صلا حیت ہے) ہماری شخصیت کی تشکیل ہی تب ہوتی ہے کہ ہمارے اندر عقل و قلب کے ساتھ ساتھ شہوت و غضب بھی ہو، تاکہ نفسانی خواہشات کے مقابل سخت جہاد کر کے انسان راہِ جنت پر گامزن ہو سکے۔
جنت اسی دنیا سے گزر کر اور خواہشاتِ نفسانی کے ساتھ جہاد کے ذریعے ہی تشکیل پاتی ہے، اسی وجہ سے ایک بنیادی اصو ل کے طور پر کہا جاتا ہے دنیا قابلیتوں کے حدوث و اثبات کی جگہ اور آخرت ان کے ظہور و ثبات کی جگہ ہے یعنی جنت کے درجات اور جہنم کے درکات پہلے سے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ہم انہیں بناتے ہیں اور یہ ہمارے اندر عقل و قلب کے ساتھ شہوت و غضب، قوتِ اختیار وجہا د اور تربیتِ نفس کے مرہونِ منت ہے، پس اگر ان میلانات کو دائمی جہاد کے ذریعے کنٹرول نہ کیا جائے تو انسان کو پستی میں گرا دیں گے، انسان اپنے نفس کو عظمت دے کرمقامِ قربِ الٰہی اور بہشتِ رضوان تک پہنچا سکتا ہے لہٰذا ان قوتوں کا انسان میں وجود ضروری ہے اور اختیار کمال کا لا زمہ ہے۔
دوسرا: اسلام کا ان قوتوں (خواہشات) کے بارے میں نظریہ
اسلام عیسا ئیت کے برخلا ف ان خوا ہشات کو خصوصا ً قوتِ شہوت کو منفی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ اسلام اس کائنات کے حکیمانہ نظام کی بنیاد پر ان سب قوتوں اور خواہشات کو بہت ضروری سمجھتا ہے، ہاں وہ جسے اسلام قبول نہیں کرتا اور اس کی اجازت نہیں دیتا ان خواہشات کو اصلی مقصد بنانا اور شہوات کو بے لگام کر کے ان کے ہاتھ اسیر ہو جانا ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اپنے وجود کے روشن پہلو سے غافل ہو جائے، جب کہ ان خواہشات سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے انہیں ترقی و کمال کے راستے میں استعمال کرنا اسلام کی نظر میں بہت مورد تاکید واقع ہوا ہے۔
تیسرا: خواہشات کا قابلِ مہارہونا
انسانی خواہشات خصوصاً قوہ شہویہ تو اچھی طرح قابلِ مہار ہیں لیکن مہار کرنے کا مطلب انہیں دبانا نہیں ہے بلکہ مراد ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں بے لگام ہونے سے روکنا ہے، بعض وہ امور جو شہوت کے مہارکرنے میں مفید واقع ہوتے ہیں، درج ذیل ہیں۔
۱: اعلیٰ تمایلات کا وجود
اس طرح کے میلانات جیسا کہ فطرت ہے، انسان کے اندر سے قوہ شہویہ کے بے لگام ہونے میںمانع ہوتے ہیں اگر ان میلا نات کو اچھی طرح مضبوط کیا جائے تو وہ قوہ شہویہ کو کنٹرول کر کے اسے صحیح راستے پر چلا سکتے ہیں۔
۲ :عقل و خرد
عقل باطنی رسول ہے جو اندر سے رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے ،یہ خواہشات کو صحیح سمت دے کر نفس کی قوتوں میں اعتدال ایجاد کرنے میں بہت مؤثر ہے۔
۳ :انبیاؑء کی ہدایت
انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات بہترین اور قابلِ اطمینا ن راستہ ہیں، ان خواہشات سے استفادہ، ان کی مثبت ومنفی جہات کے بارے میں آگاہی، ان تعلیمات پر عمل کا مضبوط ترین جذبہ اور نفسانی خواہشات سے برتاؤ سب انہی تعلیمات سے حاصل ہوتا ہے، دوسری طرف سے انبیاؑء کی دوسری تعلیمات جیسے عبادات وغیرہ انسان کے معنوی پہلو کی تقویت میں بہت اثر انداز ہوتی ہیں کہ جن کی بناء پر نفسِ امارہ سے جہاد آسان ہو جاتا ہے۔
۴ : قوتِ ارادی
انسان کا اختیار خداوند تعالیٰ کے عظیم ترین عطیوں میں سے ایک ہے اور انسان کے اعما ل میں اس کی رہنما ئی میںقوت ارادی بہت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، اس سے نیکی کا ارادہ مضبوط کیا جاسکتا ہے اور جب یہ ارادہ مضبوط ہو جائے تو پھربہت سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتے ہیں، اگر جوان میں خواہشا ت قوی ہیں تو ان کے مقا بلے کیلئے وہ ایک مضبوط قوتِ ارادی بھی رکھتا ہے ،اس میں طہارتِ نفس اور معنوی میلانات زیادہ قوی ہوتے ہیں کہ جس کی بناء پر وہ ان خواہشات کے قابو پر قادر ہوتا ہے۔
خداوندِتعالیٰ نے قرآن میں حضرتِ یوسفؑ اور اصحابِ کہف جیسے جو انوں کی مثال ذکر کی ہے کہ جو اپنے مضبوط ارادے کے ذریعے خواہشات کی امواج اور عظیم حوادث کے سامنے سینہ سپر ہوئے اور انہوں نے تاریخِ بشریت میں باعثِ فخر کارنامے رقم کیے، انقلابِ اسلامی ایران کی تاریخ میں حسین فہمیدہ جیسے جوانوں نے ایمان اورمضبوط ارادے کے ساتھ تاریخ کے خوبصورت جلوے دکھائے۔
۵ : غیبی امداد
جو لوگ گنا ہ سے پا ک زندگی گزارنا چاہتے ہیں، خدا ان کی مدد فر ما تا ہے جیسا کہ ارشا د ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن(۳)
اورجن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے اور اس میں شک نہیں کہ خدا نیکوکاروں کا ساتھی ہے۔
قرآن مجید نے حضر ت یوسفؑ کے گنا ہ سے بچنے کی ایک وجہ خدا کی امداد کو قرار دیا ہے، لیکن ایسی عنا یا ت حضرتِ یوسفؑ کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ جو بھی گناہ سے بچنے کا قصد کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس بارے مدد طلب کرے تو خدا کی عنایات اس کے شامل حال ہو جائیں گی اور حضرت یوسفؑ کو بھی خد اوند کی عنا یات کی شمو لیت کی وجہ ان کی خا لصانہ عبا دت تھی۔(۴)
چوتھا: واپسی کا امکان
یہ صحیح ہے کہ اکثرلوگ خواہشا ت کے مقا بل شکست کھا جاتے ہیں اور گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود خداوند نے لوگوں پر توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور توبہ کو ایک ایسا راستہ قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعے لوگ پاک و پاکیزہ زندگی شروع کر سکتے ہیں یعنی اپنی سابقہ پلیدگی و گناہ کو اشکِ ندامت اور آبِ مغفرتِ الٰہی سے دھو ڈالیں اور کمال و سعادتِ ابدی کی طرف قدم بڑھائیں۔
یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ اکثر لوگ شہوت و غضب کے سامنے شکست کھا جاتے ہیں یہ درحقیقت افراطی اور جانبدارانہ نظر ہے، ان میںسے اکثر دینی معا شرہ میں مشروع و جائز طریقے سے اپنی جنسی ضروریات پوری کرتے ہیں، اگر خدانخواستہ کبھی برائی میں مبتلا ہو جائیں تو توبہ اور رجوع الی اللہ کے ذریعے اس کاازالہ کرتے ہیں اور اس طرح سے قربت خدا حاصل کر کے اس کی رحمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ انسان میں ان خواہشات کا وجود بھی ضروری ہے اور برائیوں سے بچنے کے تمام وسائل بھی انسان کو فراہم ہیں۔
(حوالہ جات)
(۱) مزید تفصیلات کے لئے شہید مطہری کی کتاب فطرت ۔ قم صدرا
(۲)عدل الٰہی، مرتضیٰ مطہری / ص ۱۸۲
(۳)عنکبوت /۶۹
(۴) یوسف /۲۴