حکایات و روایاتکتب اسلامی

حلال مال سے انفاق کرو

امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک اہل سنت کے ’’اللہ والا‘‘ ہونے کی داستانیں سنیں تو سوچا کہ اسے دیکھوں۔
اتفاق سے ایک دن میں نے اسے ایک جگہ دیکھ ہی لیا،لوگ اس کے قریب جمع تھے اور وہ ان کو اپنے سے دور کر رہا تھا،اس نے کپڑے سے اپنا منہ چھپا رکھا تھا صرف اس کی پیشانی اور آنکھیں کھلی تھیں،اس نے اپنے عقیدت مند وں کو اپنے سے دور ہٹا دیا اور اکیلا ایک طرف چلنے لگا،میں بھی اس کے پیچھے چلتا گیا۔
راستے میں تنور والے کی ایک دکان تھی جہاں لوگ روٹیاں لینے قطار میں کھڑے تھے،یہ شخص بھی وہاں رکا،میں نے دیکھا کہ اس نے وہاں سے دو روٹیاں چرائیں اور چل دیا،پھر آگے ایک شخص انار بیچ رہا تھا اس نے آنکھ بچا کر دو انار چور کرلیے، میں یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ یہـ’’اللہ والا‘‘چوری بھی کرتا ہے۔
چند قدم چلنے کے بعد راستے میں اس نے ایک مریض کو دیکھا تو وہ روٹیاں اور انار اسے دے دئیے،میں نے اسے آواز دی تو وہ رک گیا،میں نے کہا:اے بندہ خدا!میں نے تیری بڑی تعریف سنی تھی اور تجھے دیکھنے کی خواہش تھی لیکن آج میں نے تجھے دیکھا تو مجھے تیرے حرکت پر بہت دکھ ہوا۔
اس نے کہا:تم نے کیا دیکھا اور میری کس بات سے تمہیں دکھ ہوا؟
میں نے کہا:تو نے تنور سے دو روٹیاں اور انار فروش سے دو انار چرائے ہیں۔
یہ سننا تھا کہ وہ بول اٹھا:تم کون ہو؟
میں نے کہا:میں اہل بیتِ رسولؑ میں سے ہوں۔
اس نے پوچھا :کہاں کے رہنے والے ہو؟میں نے کہا:میرا گھر مدینے میں ہے۔
اس نے کہا:کیا آپ جعفر بن محمد بن علی بن حسینؑ ہیں؟
میں نے کہا:بالکل میں وہی ہوں۔
اس نے کہا:رسول اللہ ﷺ سے تمہاری رشتے داری کیا فائدہ دے گی جبکہ تم اپنے نانا کے علم سے ناواقف ہو؟
میں نے کہا:مجھے بھی کچھ علم کی بات بتائو۔
اس نے کہا:کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی کہ ’’مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزَى إِلا مِثْلَهَا‘‘جو شخص ایک نیکی کرے گا اسے دس گنااجر ملے گا اور جو ایک برائی کرے گا اس کے دفتر عمل میں ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔
تو اب سنو!میں نے دو روٹیاں اور دو انار چور کئے تو میرے دفتر عمل میں چار گناہ لکھے گئے،پھر میں نے دو روٹیاں اور انار ایک مریض کو دے دئیے تو میرے دفتر عمل میں چالیس نیکیاں لکھی گئیں،اب چالیس میں سے اگر چار کو نکال دو تب بھی میرے حصے میں چھتیس نیکیاں بچ جائیں گی۔
میں نے اس کی یہ بات سن کر کہا:’’ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ‘‘ تیری ماں تیرے غم میں روئے،تجھے تو کتاب خدا کا ذرا بھی علم نہیں ،خدا قرآن میں فرماتا ہے:’’إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ‘‘پرہیزگاروں کا عمل قبول کرتا ہے،یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ چور پرہیزگار نہیں ہوتا اور تجھے ثواب ملتا جب مال تیرا ہوتا،اب تو نے دور وٹیاں اور دو انار چوری کئے تیرے دفتر عمل میں چار برائیاں لکھی گئیں اور پھر تو نے مالک کی اجازت کے بغیر  ان چیزوں میں تصرف کیا تو چار گناہ مزید تیرے دفتر عمل میں لکھ دئیے گئے،اس طرح تیرے دفتر عمل میں آٹھ گناہ لکھے گئے اور ایک بھی نیکی درج نہیں ہوئی۔
میرا استدلال سن کر وہ عجیب نظروں سے مجھے گھورنے لگا،میں وہاں سے چلا آیا۔

(حوالہ)

(انوار نعمانیہ ص۱۹)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button