محنت کی عظمت
سراج الدین سکا کی ایک بلند پایہ عالم تھے،وہ کئی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے، مفتاح العلوم ان کی مشہور کتاب ہے،وہ اپنی جوانی میں لوہار تھے اور لوہے کے اوزار بنایا کرتے تھے،انہوں نے اس دور میں ایک ایسا تالابنایا جس کا وزن صرف ایک قیراط تھا اور اس تالے کو بادشاہ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرنے لے گئے۔
بادشاہ اور اس کے درباریوں نے اس تالے کو دیکھا ضرور لیکن اس کی کوئی خاص تعریف نہیں کی۔
اسی اثنا میں ایک عالم دربار میں داخل ہوا تو بادشاہ نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اسے اپنے پہلو میں بٹھایا۔
سکا کی نے پوچھا:یہ کون ہے؟اسے بتایا گیا کہ یہ ایک عالم ہے۔
یہ سن کر سکاکی سوچنے لگے کہ اگر میں بھی عالم ہوتا تو بادشاہ میرا بھی اتنا ہی احترام کرتا جتنا کہ اس عالم کا احترام ہورہا ہے۔
اس وقت سکاکی کی عمر تیس سال تھی،وہ تحصیل علم کے لیے مدرسہ گئے،اسے دیکھ کر استاد نے کہا:مجھے پڑھانے سے تو انکار نہیں مگر تم اس عمر میں کچھ یاد نہیں کرسکو گے۔
سکاکی نے کہا:میں ہر قیمت پر علم حاصل کروں گا۔
استاد نے کہا:میں تمہارے حافظہ کا امتحان لوں گا پھر تمہیں پڑھانا شروع کروں گا۔
استاد نے امام شافعی کے اجتہادات میں سے ایک مسئلہ اسے سکھایا اور کہا کہ تم اس عبارت کو یاد کرو،عبارت یہ تھی:’’قال الشَّيْخ جِلْدُ الْكَلْبِ يَطْهُر بالدِّباغة‘‘ شیخ کا قول ہے کہ دباغت سے کتے کی جلد پاک ہوجاتی ہے۔
استاد نے کافی دیر تک سکاکی کو یہ عبارت یاد کرائی،دوسرے دن سکاکی نے اس عبارت کو یوں سنایا:’’قال الشَّيْخ جِلْدُ الْكَلْبِ يَطْهُر بالدِّباغة‘‘کتے کا قول ہے کہ شیخ کی جلد دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔
مدرسے کے سارے طلباء یہ عبارت سن کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے،سکاکی اپنے مستقبل سے مایوس ہوگئے اور دل میں کہنے لگے کہ اس عمر میں کچھ پڑھنا بے کار ہے بالخصوص جب قوت حافظہ کمزور ہو،انہوں نے مدرسہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
اسی دوران ان کا گزر ایک پہاڑی سے ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ پہاڑسے پانی قطرہ قطرہ نیچے گر رہا ہے اور جہاں پانی کے قطرے گر رہے ہیں وہاں سخت پتھر ہونے کے باوجود پانی کی مسلسل بوندیں گرنے کی وجہ سے اس پتھر پر نشان پڑ چکا ہے۔
سکاکی اس منظر کو کافی دیر تک دیکھتے رہے پھر اپنے آپ سے کہنے لگے کہ پتھر سے زیادہ سخت کوئی چیز نہیں اور پانی سے زیادہ نرم کوئی چیز نہیں،جب نرم پانی کی ایک ایک بوند پڑنے سے سخت پتھر پر نشان پڑ سکتا ہے تو میرا دل و دماغ پتھر سے تو زیادہ سخت نہیں،یہ سوچ کر ایک نئے عزم و ارادہ سے انہوں نے پڑھنا شروع کیا،آخر کار چند سالوں کے بعد وہ اپنے زمانے کے مشہور عالم بن گئے۔