عالمِ ذر
سوال۸:۔ سورہ مبارکہ اعراف کی آیت ۱۷۲ جو آیت ذر کے نام سے معروف ہے، کی وضاحت کریں ؟
یہ آیت اس زمان کے بارے میں بات کرتی ہے جس میں انسان ربوبیت الہٰی اور اپنی عبودیت سے آگاہ ہوا اور عہد و پیمان باندھا، فرمایا :
وَاِذْ أخَذَ َربَّکَ مِنْ بَنِی آدمً مِن ظُہْورِھِمْ ذُرّیَتَھم وَ أَشْھَدَھُمْ عَلٰی أَنْفِسِِھمْ أَلَسْتُ بَرِبّکُمْ قٰالُوا بَلیٰ
ہم نے انسانوں کو ایک زمانہ میں خود ان پر گواہ قرار دیا،ان کے نفوس کو خود انہیں دکھایا،انہوں نے ربوبیت خدا اور اپنی عبودیت کا اعتراف کیا،ہم نے یہ کام انجام دیا تاکہ قیامت کے دن جو کہ روز حساب ہے کوئی بہانہ نہ لا سکے کہ میں نے بے دین ماحول میں پرورش پائی ہے اور قومی رسم و رواج مجھ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
أن تُقولوا یَومِ القیامَۃِ انا کُنَّا عَنْ ھَذَا غَافِلِیْن(۱)
(یہ ہم نے اس لیے کہا کہ ایسا نہ ہو)کہیں تم قیامت کے دن بول اٹھو کہ ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے۔
اسی طرح سیاسی، جغرافیائی، قومی اور قبیلہ جیسے بہانے بھی غیرموثر ہوں گے ۔
خداوندمتعال نے فرمایا :
اس وقت تم نے اپنی حقیقت کو دیکھا کہ تم عبدِ خدا ہو اور خدا تمہارا رب ہے، وہ زمانہ تاریخی نہیں کہ تم کہو ہم بھول گئے، وہ آج بھی تمہارے ساتھ ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
واذ یعنی واذکر، اس وقت کو یاد کرو یعنی اگر اب بھی فکر کرو، تو وہ واقعہ تمہیں یاد آئے گا، ایسا نہیں کوئی اور عالم ہو، جو تمہیں بھول گیا ہو تاکہ تم کہو کہ ہم بھول گئے،اس بات کو خداوندمتعال نے سورہ اعراف میں مدلّل کیا اور فرمایا : اس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی قیامت کے دن بہانہ نہ لا سکے ۔
اصل توحید، نبوت، وحی، شریعت ہر انسان کے اندرپیش بینی شدہ ہے ۔
أن تُقولوا یَومِ القیامَۃِ انا کُنَّا عَنْ ھَذَا غَافِلِیْن
خداوندِ متعال نے انسان کو ان گنت نعمات سے نوازا ہے،اُن نعمات میں نعمت جوانی ہے یا علم یا مال ہے یا خوبصورتی کی نعمت ہے ۔
اگرانسان الٰہی ہو، اس کے لیے یہ نعمات ایک شفاف شیشہ کی مانند ہیں کہ جس کے پیچھے سے وہ تمام حقائق کو دیکھتا ہے اور اگر غیر الٰہی ہو تو یہی نعمات اس کے لیے پردہ کی مانند ہیں جس کے پیچھے سے دیکھا نہیں جا سکتا ۔
انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس پردے کو ہٹا دے تاکہ حقائق کو دیکھ سکے، عارف کا باقی لوگوں سے فرق اسی میں ہے، عارف ایک شیشہ کے کمرے میں زندگی بسر کرتا ہے اور اوپر، نیچے، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں تمام حقائقِ عالم کو واضح طور پر دیکھتا ہے لیکن باقی نہیں دیکھتے ۔
یہ تمام نعمات ہم غافل لوگوں کے لیے پردہ ہیں، مثال کے طور پر سلامتی، صحت ہمارے لیے پردہ ہے، جونہی یہ پردہ بیماری کی وجہ سے پھٹتا ہے تو ہم کہتے ہیں یا اللہ، جونہی جوانی پیری میں تبدیل ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یا اللہ یا جب کسی مقام، منصب سے معزول ہوتے ہیں تو ہماری صدائے یااللہ بلند ہوتی ہے، غافل و عاقل میںیہی فرق ہے ۔
عاقل اگر جوان ہو، عالم ہو، مالدار ہو تو یہ سب اس کے لیے شیشہ ہیں یعنی وہ جانتا ہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے عطا کردہ اور امانت ہے، اسی وجہ سے مغرورانہ زندگی بسر نہیں کرتااور اپنی جوانی، علم، مال، مقام کو بجا طور پر صرف کرتا ہے، غافل اس کے برعکس ہے، غافل جوان جب بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی جوانی کی غفلت کا پردہ اٹھتا ہے تو اپنی قضا نمازوں کی فکر میں پڑتا ہے، جب اس کی تندرستی بیماری میں تبدیل ہوتی ہے ۔ أَمَّن یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوء (۲) پڑھتا ہے، خداوندِمتعال نے ہم سب کے اندر شفاف شیشہ رکھا ہے جس کو غفلتِ گناہ کا گرد و غبار چھپا دیتا ہے اور وقت کے گزرنے اور غفلتِ دائمی کی وجہ سے پردہ حجاب میں تبدیل ہو جاتا ہے، انسان نہ اپنے فقر سے چشم پوشی کر سکتا ہے اورنہ ہی غنی سے اپنی التجا کوچھپاسکتا ہے، ہم فقیر ہیں اور جو ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے وہ فقط بالذات غنی ہے، اگر خلائی چاند گاڑی چاند میں کسی مشکل میں مبتلا ہو تو اس میں بیٹھے لوگ کس سے توسل کریں گے ؟ مسلّم طور پر ایسی قدرت سے متوسل ہوں گے جو فِیْ السَّمَاء إِلَہٌ وَفِیْ الْأَرْضِ إِلَہٌ(۳) ہے، عرفانی ادبیات میں معشوق کو دلآرام کہتے ہیں یعنی وہ چیزاورشخص جس تک پہنچنے کے بعد انسان کا دل مطمئن ہوتا ہے، آغاز میں جوانی انسان کی معشوق ہوتی ہے لیکن پھر وہ سمجھ لیتا ہے کہ ایسا نہیں، پھر مقام، پھر مال اور اس جیسی اشیاء، انسان جب ان امور کو یکے بعد دیگرے گزار لیتا ہے تو وہ بتدریج درک کر لیتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے اطمینان بخش اور سکون آور نہیں، یہ تمام موارد واسطہ اورپل ہیں نہ کہ دلآرام ۔
یہ درک کرنے کے لیے کہ معشوق تک رسائی حاصل کر لی ہے یا نہیں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم مطمئن ہوتے ہیں یا نہیں، اگر سورہ مبارکہ رعد میں آیا ہے :
أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔(۴)
ان (مومنین) کے دلوں کو خدا کی یاد سے تسلی ہوا کرتی ہے۔
تو یہ اسی لیے ہے۔
یہ طمانینہ عربی میں وہی ہے جسے فارسی میں دلآرام(دل کو سکون عطاکرنے والا)کہتے ہیں یہ دل خود ہمارے اختیار میں ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کس چیز سے مطمئن ہوتا ہے، یہ جو انسان مال، بیوی و امثالھم کے حاصل کرنے سے مطمئن نہیں ہوتا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب اس کے معشوق نہیں، معشوقِ حقیقی ذات مقدس الٰہی ہے۔
بہرحال انسان کے اندر سب کچھ ہے اگر کبھی نشاط آور نسیم آپ پر برستی ہے اور آپ نشاط پاتے ہیں تو سمجھ لو کہ کسی کے قلب کو تم نے خوشحال کیا ہے اور اس خوشحالی کا اثر نسیمِ بہشتی کی صورت میں آپ پر پڑا ہے، اگر طعن و تشنیع کی ہے یا غیبت کی یا کسی کو دکھ دیا ہے تو یہ نسیمِ جہنمی کی شکل میں آپ پر برسے گی اور دیکھو گے کہ مضطرب و پریشان ہوئے ہو، اگر انسان مراقبہ و محاسبہ کرتاہو اور ہر روز اس اندرونی شیشہ سے گرد کو صاف کرے تو ہمیشہ شفاف رہتا ہے وگرنہ یہ گرد زیادہ ہو کر ضخیم حجاب میں تبدیل ہو جاتی ہے، پس یہ آیتِ شریفہ کہتی ہے کہ ہر روز اس صحیفۂ اقرار کویاد رکھو۔
(حوالہ جات)
(۱) سور ہ اعراف۔آیت ۱۷۲
(۲) سورہ نمل آیت ۶۲
(۳)سورہ زخرف آیت ۸۴
(۴)سورہ رعد آیت ۲۸