مہمانی کا انداز
حکیم سعد الدین نزاری،شیخ سعدی شیرازی کے ہم عصر تھے،دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی شیخ سعدی ،حکیم نزاری سے ملنے کےلیے دو مرتبہ قہستان آئے اور حکیم نزاری بھی سعدی سے ملنے چند مرتبہ شیراز گئے۔
ایک مرتبہ حکیم سعد الدین،شیخ سعد ی کے مہمان ہوئے شیخ سعدی نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی لیکن حکیم زیادہ عرصہ شیراز میں نہ ٹھہرے اور چلتے وقت سعدی سے بولے کہ ہم تو جارہے ہیں لیکن مہمان نوازی کا تقاضا یہ نہ تھا جو آپ میرے لیے کرتے رہے۔
شیخ سعدی نے معذرت کی کہ میں آپ کی پوری طرح خدمت نہ کرسکا۔
کچھ عرصہ بعد شیخ سعدی حکیم نزاری سے ملنے کے لیے قہستان آئے اور جب بیرجند پہنچے توانہوں نے حکیم کو اپنے کھیت میں کام کرتے دیکھا،حکیم نے شیخ سعدی کو اپنے گھر روانہ کردیا اور خود اپنے کام میں مصروف رہے،جب فارغ ہوئے تو اپنے مہمان کے پاس آکر بیٹھے اور کھانے میں کسی طرح کا تکلف روانہ رکھا،وہی عام اور سادہ غذا جو معمول کے مطابق ان کے گھر پکا کرتی تھی سعدی کو کھلاتے رہے،شیخ سعدی تین ماہ ان کے مہمان رہے اور جب حکیم نے محسوس کیا کہ شیخ واپسی کا ارادہ کر رہے ہیں تو انہوں کے خوب خاطر مدارات کی اور دوستوں سے کہا کہ شیخ واپس جانا چاہتے ہیں لہٰذا آپ بھی ان کی مہمان نوازی کریں،پورا ایک مہینہ شیخ سعدی کی دعوتیں ہوئیں،جب شیخ روانہ ہونے لگے تو حکیم نزاری نے کہا:مہمان نوازی کی شرط یہ ہے کہ تکلف سے خالی ہو تاکہ مہمان چند دن اپنے میزبان کے پاس ٹھہر سکے۔
(حوالہ)
(تاریخ قہستان)