حکایات و روایاتکتب اسلامی

علامہ مجلسی ؒکا مقبول عمل

سید نعمت اللہ جزائری فرماتے ہیں کہ کچھ علم حاصل کرنے اور سیر و سیاحت کرنے کے بعد میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کسی بہت بڑے عالم دین سے مزید کسب فیض کرنا چاہیے،میں مسلسل اس جستجو میں رہا یہاں تک کہ اصفہان میں علامہ مجلسیؒ کی زیارت نصیب ہوئی،میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے اپنی شاگردی میں لے لیں جو خوش قسمتی سے انہوں نے منظور کرلی۔
میں ایک طویل عرصے تک ان کی خدمت میں رہا اور ان سے کسب فیض کرتا رہا،وہ مجھ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور مجھے اپنے گھر کاایک فرد سمجھتے تھے۔
علامہ مجلسیؒ ہمیشہ بہترین لباس پہنا کرتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بہترین لباس سلوا کر دیتے تھے حتیٰ کہ ان کے نوکر بھی کشمیری دوشالے پہنتے تھے۔مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ اتنا بڑا عالم زاہدانہ زندگی کیوں نہیں گزارتا اور زینت دنیا کو اس قدر اہمیت کیوں دیتا ہے جبکہ آئمہ طاہرینؑ پیوند لگے کپڑے پہنا کرتے تھے۔
میں اس انتظار میں رہا کہ خلوت میسر آئے تو ان سے اس مسئلے پر بات کروں۔
ایک روز اتفاق سے مجھے ایسا موقع مل ہی گیا،ہم کافی دیر تک مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے رہے،میں نے اس مسئلے پر بھی ان سے بات کی لیکن مجھے محسوس ہوا کہ میں علامہ سے بحث کرنے کے لائق نہیں اور علامہ موصوف دلائل سے مجھے خاموش کرادیں گے۔
میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرسکتا اور نہ ہی میری یہ حیثیت ہے،اگر آپ پسند کریں تو ہم دونوں ایک دوسرے سے وعدہ کر لیتے ہیں کہ ہم میں جو بھی پہلے فوت ہوگا وہ عالم خواب میں آکر دوسرے کو پیش آنے والے حالات بتائے گا۔
استاد محترم نے قبول کرلیا،چند دن بعد اتفاق سے استاد محترم بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں انتقال کر گئے۔
علامہ کی رحلت سے ہر شخص اداس ہوگیا اور پورا اصفہان ان کے سوگ میں ایک ہفتہ بند رہا،لوگ علامہ مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی اور دعا میں مصروف رہے۔
استاد محترم کی اچانک موت نے مجھ سے میرے ہوش و حواس چھین لیے،وفات کے ایک ہفتے بعد میں ان کے ایصال ثواب کے تلاوت قرآن کر رہا تھا کہ مجھے اونگھ آگئی،میں نے علامہ مرحوم کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر کے قریب بہترین لباس زیب تن کئے بیٹھے ہیں، اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آپ تو وفات پاچکے ہیں،یہ خیال آتے ہی میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے ہاتھ کا بوسہ لے کر کہا: عالم برزخ میں آپ کی کیا حالت ہے اور آپ نے موت کو کیسے پایا؟
انہوں نے فرمایا:بیٹے!جیسے ہی میری بیماری میں شدت آئی اور میرا درد بڑھا تو میں نے اللہ سے شکایت کی کہ پروردگار!تو نے قرآن میں خود فرمایا ہے:
’’لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا‘‘اللہ کسی کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔(سورہ بقرہ:آیت۲۸۶)
خدایا!درد سے میرا برا حال ہے اور یہ تکلیف میرے لیے ناقابل برداشت ہے،مجھ پر رحم فرما اور مجھے اس مرض سے نجات عطا فرما،اس وقت میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو آکر میری پائنتی بیٹھ گئے اور مجھ سے میرا حال پوچھنے لگے،میں نے ان سے بھی شکایت کی کہ مجھے شدید تکلیف ہے۔
انہوں نے اپنا ہاتھ میرے پائوں پر رکھا اور پوچھا اب بھی یہاں درد ہے؟
میں نے کہا:جہاں آپ نے ہاتھ رکھا وہاں سے درد ختم ہوگیا ہے لیکن اس سے اوپر والے حصے میں درد کی شدت بڑھ گئی ہے،وہ آہستہ آہستہ ہاتھ اوپر رکھتے گئے،جہاں وہ ہاتھ رکھتے وہاں درد ختم ہوجاتا یہاں تک کہ انہوں نے میرے دل پر ہاتھ رکھا،پھر اچانک میں نے محسوس کیا کہ میں اس خاکی بدن کی قید سے آزاد ہوچکا ہوں،میں کمرے کی ایک سمت میں کھڑا ہوگیا اور میرا بے جان جسم زمین پر پڑا تھا،میں نے بڑے تعجب سے اس جسم کو دیکھا۔
اس وقت کمرے میں میرے جتنے بھی رشتے دار موجود تھے ،سب نے رونا شروع کردیا اور میرے جسم سے چمٹنے لگے۔
میں نے ان سے اصرار کیا،آپ لوگ نہ روئیں،مجھے درد سے چھٹکارا مل گیا ہے مگر کسی نے میری بات نہ سنی،میرے جسم کو غسل دیا گیا اور کفن پہنا کر جنازہ پڑھایا گیا،یہ سب مناظر میں دیکھتا رہا اور یہ دیکھنے کےلیے کہ میرے جسم کو کس طرح دفن کرتے ہیں میں خود اپنے جنازے کے آگے آگے چلتا رہا۔
قبرتیار ہوگئی اور اب انہوں نے دفن کرنے کا ارادہ کیا تو میں اپنے آپ سے کہنے لگا کہ میں قبر میں داخل ہوں گا لیکن جیسے ہی میرے جسم کو قبر میں اتارا گیا تو اس وقت کچھ سجھائی نہیں دیا،میں خود اس قبر میں کیسے داخل ہوگیا،بس یہی سمجھو کہ قبر بند ہوگئی اور میں نے اپنے آپ کو اس تنگ مقام میں پایا،پھر میں نے اس وقت ایک آواز سنی۔
میرے بندے محمد باقر!آج کے دن کےلیے تو کون سا ،زاد راہ لے کر آیا ہے؟
میں نے اپنے تمام نیک اعمال بتائے لیکن کوئی بھی عمل قبول نہ ہوا اور میری وحشت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا گیا اور مجھے کوئی راہ فرار نظر نہ آتی تھی۔
آخر میں نے عرض کیا:پروردگار!ایک دن میں گھوڑے پر سوار ہو کر اصفہان کے مرکزی بازار سے گزر رہا تھا،وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک شخص کو مار رہے ہیں اور اسے بے تحاشا گالیاں دے رہے ہیں،معلوم ہوا کہ وہ شخص مار پیٹ کرنےوالوں کا مقروض ہے مگر وہ ان کا قرض نہیں اتار سکتا،وہ بے چارہ مہلت مانگتا تھا لیکن کوئی بھی اسے مہلت دینے پر آمادہ نہ تھا،اسی اثنا میں ایک دکاندار نے اس کے سر پر جوتا دے مارا اور کہا مجھے پتا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لیے تیر ے پاس پیسے نہیں ہیں مگر تجھے مار کر میرے دل کو ایک گو نہ تسلی مل رہی ہے۔ میں نے دل میں کہا:مجھے ان لوگوں سے ڈرنے کی بجائے خدا سے ڈرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ میں نے لوگوں سے کہا کہ جس شخص نے بھی اس سے قرض لینا ہے،وہ میرے پاس آجائے میں اس کا قرض ادا کردوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس بے چارے کو چھوڑ دیا جائے،میں اس شخص کو لے کر اپنے گھر آگیا،اس کی دلجوئی کی اور اس کا تمام قرض ادا کردیا۔
اس وقت میں نے قبر میں یہ آواز سنی کہ ہم نے تیرے اس عمل کو قبول کیا،پھر مجھ سے مزید کوئی سوال جواب نہیں ہوا۔
اس کے بعد میری قبر میں جنت کا دریچہ کھل گیا،جس سے نسیم جنت کے خوشگوار جھونکے آنے لگے اور میری قبر تاحد نظر وسیع ہوگئی اور اب مجھے ہر قسم کی نعمتیں میسر ہیں۔
جو شخص میری زیارت کے لیے آتا ہے میں اس کے لیے دعا کرتا ہوں اور میرے لیے جو قرآن پڑھاجاتا ہے یا دعائیں پڑھی جاتی ہیں اللہ ان کا ثواب مجھے عطا فرماتا ہے۔ پھر علامہ مجلسی نے مجھ سے فرمایا:سید!اب تم ہی بتائو اگر دنیا میں میرے پاس مال و دولت نہ ہوتی تو میں اس مقروض کا قرض کیسے ادا کرتا؟
اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ استاد محترم اپنی زندگی میں جو کچھ کرتے تھے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے لیے کام کرتے تھے۔

(حوالہ)

(روضات الجنات ص۱۲۳)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button