حکایات و روایاتکتب اسلامی

غصے پر قابو

(۱)’’قال رسول الله صلى الّله:
مَثَلَ الْمُؤْمِنِ مثل الأرض منافھم منھم وَ أَذَاهُمْ عَلَيْهَا وَ مَنْ لَا يَصْبِرُ عَلَى جَفَاءِ الْخَلْقِ لَا يَصِلُ إِلَى رِضَى اللَّهِ‘‘
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
مومن کی مثال زمین کی سی ہے،لوگ زمین سے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں اور تمام غلط کاریاں بھی زمین پر ہی کرتے ہیں،جو شخص مخلوق کی جفا پر صبر نہ کرسکے تو وہ رضائے حق تک نہیں پہنچ سکتا۔
(۲)’’محمد بن علي بن الحسين قال :
مر رسول الله ﷺ بقوم يتشايلون حجرا ، فقال : ما هذا ؟ فقالوا : نختبر أشدنا وأقوانا ، فقال : ألا أخبركم بأشدكم وأقواكم ؟ قالوا : بلى يا رسول الله ، قال : أشدكم وأقواكم الذي إذا رضي لم يدخله رضاه في إثم ولا باطل ، وإذا سخط لم يخرجه سخطه من قول الحق ، وإذا ملك لم يتعاط ما ليس له بحق‘‘
امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
ایک دفعہ رسول اللہﷺ کا گزر ایسے جوانوں کے پاس سے ہوا جو ایک وزنی پتھر اٹھانے کا مقابلہ کر رہے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا: آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ جوانوں نے کہا:یارسول اللہؐ! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے زیادہ طاقتور کون ہے؟آپ ؐ نے فرمایا:کیا میں بتائوں کہ تم میں سب سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ سب نے کہا،یارسول اللہؐ! ضرور بتائیں،آپ ؐنے فرمایا:تم میں سب سے زیادہ طاقتور وہ شخص ہے کہ جب وہ خوش ہو تو یہ خوشی اسے گناہ اور باطل کاموں کی طرف راغب نہ کرسکے ،جب وہ ناراض ہو تو ناراضگی اسے قول حق سے باہر نہ نکالے اور جب وہ کسی چیز کا مالک بنے تو اس چیز پر نظر بھی نہ رکھے جو اس کا حق نہ ہو۔
(۳)’’قالَ الإمامُ الصّادقُ علیه السلام:
الحلم سراج الله و حقیقة الحلم: ان تعفو عمّن اساء الیک و خالفک و أنت القادر علی الانتقام منه قال الصّادق علیه السّلام‏: الحلم سراج اللَّه یستضی‏ء به صاحبه إلى جواره، و لا یکون حلیما إلّا المؤیّد بانوار المعرفة و التّوحید، و الحلم یدور على خمسة اوجه: أن یکون عزیزا فیذلّ، او یکون صادقا فیتّهم، او یدعو إلى الحقّ فیستخفّ به، او کان یؤذى بلا جرم، او ان یطالب بالحقّ فیخالفوه فیه، فان اتیت کلاّ منها حقّه فقد اصبت، و قابل السّفیه بالاعراض عنه و ترک الجواب،
یکن النّاس انصارک، لأنّه من جاوب السّفیه فکانّه قد وضع الحطب على النّار‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
حلم خدا کا وہ روشن چراغ ہے جس کے ذریعے بردبار انسان خدا کے قرب تک روشنی حاصل کرسکتا ہے اور انسان اس وقت تک بردبار نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے نور معرفت اور نور توحید سے منور نہ ہو،علم کے پانچ مواقع ہیں:
(۱)اگر معزز انسان کی توہین ہو تو وہ بردباری کا مظاہرہ کرے۔
(۲)انسان سچ کہتا ہو لیکن لوگ اسے جھوٹا کہیں۔
(۳)حق و حقیقت کی دعوت کی وجہ سے لوگ اس کی تذلیل کریں۔
(۴)بغیر کسی خطا کے اسے اذیت دیں۔
(۵)وہ اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے لیکن لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئیں۔
اگر ان مواقع پر تم نے برداشت کا مظاہرہ کیا تو پھر تم کامیاب ہو،اگر کوئی نادان حد ادب سے نکل جائے تو اس کی طرف توجہ نہ کرو اور جواب مت دو،اس طرح لوگ تمہارے مددگار ہوں گے،اگر تم نے احمق کو جواب دیا تو گویا تم نے جلتی پہ تیل ڈال دیا ۔
(۴)’’ عن أبي عبداللهؑ قال :
قال الحواريون لعيسىؑ : أي الاشياء أشد ؟ قال : أشد الاشياء غضب الله عزّ وجلّ ، قالوا ، بما نتقي غضب الله ؟ قال : بأن لا تغضبوا ، قالوا : وما بدء الغضب ؟ قال ، الكبر والتجبر ومحقرة الناس‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے ان سے پوچھا:اے معلم خیر! آپ ہمیں بتائیے کہ سب سے سخت چیز کیا ہے؟حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:سب سے سخت چیز اللہ کا غضب ہے،حواریوں نے کہا:ہمیں اللہ کے غضب سے کیسے بچنا چاہیے؟حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:غصے کی ابتدا تکبر، خودپسندی اور دوسروں کو حقیر سمجھنے سے ہوتی ہے۔
(۵)’’عن الصادق جعفر بن محمد ، عن أبيه ؑ أنه ذكر عنده الغضب ، فقال :
إن الرجل ليغضب حتى ما يرضى أبدا ويدخل بذلك النار فأيما رجل غضب وهو قائم فليجلس فإنّه سيذهب عنه رجس الشيطان ، وإن كان جالسا فليقم ، وأيما رجل غضب على ذي رحم فليقم إليه وليدن منه وليمسه ، فإنّ الرحم إذا امست الرحم سكنت‘‘
امام جعفر صادقؑ نے اپنے والد بزرگوارؑ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ امام محمد باقر علیہ السلام کے سامنے غصے کی بحث چلی تو آپ ؑنے فرمایا:
کبھی انسان اتنا غصہ کرتا ہے کہ پھر کبھی راضی نہیں ہوتا اور یہی ناراضگی اسے دوزخ میں لے جاتی ہے،جب کسی شخص کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اور بیٹھا ہوا ہو تو کھڑا ہوجائے،ایسا کرنے سے اس سے شیطانی اثر جاتا رہے گا،اگر کسی شخص کو اپنے رشتے دار پرغصہ آئے تو اٹھ کر اس کے قریب جائے اور اس کے بدن کو مس کرے کیونکہ جب خون سے ملے گا تو اس کا غصہ تھم جائے گا۔
(۶)’’بعثت ابو عبداللہ غلاما لہ فی حاجۃ فابطا فخرج ابو عبداللہ علی اثرہ لما ابطا فوجدہ نائما فجلس عند راسہ یروجہ حتی انتبہ فلما تنبہ قال لہ ابو عبداللہ:
یا فلان واللہ ما ذلک لک تنام اللیل والنھار لک اللیل ولنا منک النھار‘‘
امام جعفر صادقؑ نے اپنے ایک غلام کو کسی کام سے بھیجا،جب اس نے دیر کی تو آپؑ اس کی تلاش میں نکلے،آگے جا کر دیکھا کہ وہ ایک جگہ آرام سے سو رہا ہے،آپؑ نے اسے پنکھے سے ہوا دینی شروع کی تاکہ وہ جاگے،جب وہ جاگا تو آپؑ نے فرمایا:تمہارا یہ حق نہیں کہ تم دن کو بھی سوئو اور رات کو بھی سوئو،تم رات کو آرام کرو اور دن کو ہمارے کام کرو۔

(حوالہ جات)
(بحارالانوار ج۶۸،ص۴۲۲)
(مستدرک الوسائل ج۱۵،ص۳۶۱)
(بحارالانوار ج۶۸،ص۴۲۲)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۳۶۳)
(کافی ج۲،ص۱۱۲)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button