میثم تمارؓ کون ہیں؟
میثم تمارؓ کو سالم کے نام سے پکارا جاتا تھا،وہ بنی اسد کی ایک عورت کے غلام تھے،حضرت علیؑ نے انہیں اس عورت سے خرید کرآزاد کردیا اور فرمایا:پیغمبر خداﷺ نے مجھے تمہارے متعلق بتایا تھا کہ تمہارے والدین نے تمہارا نام میثم رکھا تھا۔
میثم نے کہا:قربان جائوں!یہ بالکل صحیح ہے۔
پھر آپ ؑنے فرمایا: تم اپنا پرانا نام دوبارہ رکھو اور کنیت ابو سالم رکھو۔
میثم تمارؓ حضرت علیؑ سے مسلسل کب فیض کرتے رہے،آپ مسجد کوفہ کے باہر کھجوریں بیچا کرتے تھے،اسی لیے آپ کا لقب تمار تھا یعنی کھجوریں بیچنے ولا۔ کبھی کبھی حضرت علیؑ ان کی دکان پر تشریف لاتے اور فرماتے کہ تم جائو کھانا کھائو،میں تمہاری جگہ کھجوریں بیچوں گا،چنانچہ ایک مرتبہ میثم کھانا کھانے گئے ہوئے تھے اور دکان پر حضرت علیؑ تشریف فرما تھے کہ ایک فقیر آیا اور اس نے کھجوریں مانگیں۔
حضرت علیؑ نے میثمؓ کی تمام کھجوریں فقیر کو دیدیں۔
کچھ دیر بعد میثمؓ آئے تو دیکھا کہ کھجوریں ختم ہوگئی ہیں،وہ سمجھے شاید یہ بک چکی ہیں۔
حضرت علیؑ نے کہا:میثمؓ وہ کھجوریں ہم نے راہ خدا میں دے دی ہیں۔
میثم ؓ نے کہا:پھر آپ راہ خدا میں مجھے بھی کچھ عنایت فرمائیں۔
حضرت علیؑ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا تو میثمؓ کا سینہ علم المنایا والبلایا سے بھر گیا،اس علم کی وجہ سے میثمؓ لوگوں کو آئندہ کے واقعات بتایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ میثم ؓبازار کوفہ سے گزر رہے تھے،سامنے سے حضرت حبیب بن مظاہرؓ آتے ہوئے دکھائی دئیے،حبیب بن مظاہرؓ نے انہیں سلام کیا،حضرت میثمؓ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا:میں خوش آمدیدکہتا ہوں اس جوان کو جو ایک دن فرزند رسولؐ کی نصرت میں شہید کیا جائے گا۔
حبیب بن مظاہرؓ نے فوراًکہا:میں بھی اس بزرگ کو خوش آمدید کہتا ہوں جسے وصی رسولؐ کی محبت میں سولی پر لٹکایا جائے گا۔
میثمؓ نے جیسے ہی حبیب کی زبانی اپنے انجام کی خبر سنی تو تعجب سے کہنے لگے: میں نے تو یہ علم مولاعلی ؑ سے سیکھا ہے،تمہیں یہ علم کہاں سے ملا؟
حبیبؓ نے کہا:ہمارا سر چشمہ َ علم ایک ہی ہے ،تم نے یہ علم مولاعلیؑ سے لیا ہے اور میں نے ان کے فرزند حسین بن علیؑ سے حاصل کیا ہے۔
ابو خالد تمار کہتا ہے کہ ایک مرتبہ ہم میثم ؓ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ اچانک زور کی آندھی چلنے لگی،میثمؓ نے کہا:اپنی کشتیوں کو مضبوطی سے باندھ دو،آندھی مزید تیز ہونے والی ہے ،ابھی ابھی معاویہ بن ابو سفیان مرگیا ہے۔
ابوخالد تمار کہتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن اور رجب کی ۲۲ تاریخ تھی،میں نے دن اور وقت ایک کاغذ پر لکھ لیا،ایک ہفتے کے بعد شام سے ایک قاصد آیا تو میں نے اس سے حالات دریافت کئے،اس نے بتایا:حاکم شام معاویہ مرگیا ہے،وہ ۲۲رجب، جمعہ کا دن تھا۔
حضرت میثمؓ ہمیشہ امیرالمومنینؑ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے،حضرت میثمؓ کہتے ہیں کہ ایک شب میں امیرالمومنینؑ کے ساتھ تھا،آپؑ کوفہ سے نکل کر مسجد جعفی تشریف لائے،آپ ؑنے یہاں چار رکعت نماز پڑھی اور نماز و تسبیح سے فارغ ہو کر آپ ؑ نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی:’’إلهي كيف أدعوك وقد عصيتك، فكيف لا أدعوك وقد عرفتك، وحبّك في قلبي مكين، مددت إليك يداً بالذنوب مملوّة، وعيناً بالرجاء ممدودة‘‘ پروردگار!میں تجھے کیسے پکاروں جبکہ میں تیری نافرمانی کرچکا ہوں اور میں تجھے کیسے نہ پکاروں جب کہ مجھے تیری معرفت حاصل ہے اور تیری محبت میرے دل میں جاگزیں ہے،میں نے گناہوں سے بھرا ہوا ہاتھ تیری طرف پھیلایا ہے اور میں نے تیرے لطف کی طرف امید بھری نگا ہ اٹھائی ہے۔
پھر آپ ؑنے سر اقدس سجدے میں رکھا اور ایک سو مرتبہ ’’الْغَفُورٌ‘‘کہا،پھر سجدے سے سر اٹھایا اور چل دئیے،میں بھی آپ ؑکے پیچھے چلنے لگا،آپؑ ایک بیابان میں تشریف لائے اور زمین پر ایک لکیر کھینچ کر بولے:میرے آنے تک تم اس لکیر سے باہر نہ جانا۔
میں رک گیا،آپؑ آگے چلے گئے،بیابان میں سناٹا تھا اور رات تاریک تھی،میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں نے اس بیابان میں آپنے آقا کو تنہا چھوڑ دیا ہے جبکہ پورا عرب ان کے دشمنوں سے بھرا ہوا ہے،اگر خدانخواستہ انہیں کوئی گزند پہنچی تو میں قیامت کے دن خدا اور رسولؐ کوکیا منہ دکھائوں گا؟ہائے افسوس!مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،پھر میں نے اس لکیر سے باہر نکل کر اپنے آقا کا پتا چلانے کا ارادہ کرلیا، اگرچہ میرا یہ عمل آپ کے حکم کے خلاف تھا۔
چنانچہ عشق علیؑ کے جذبے سے مجبور ہو کر میں لکیر سے باہر آیا اور بیابان میں انہیں ڈھونڈنے لگا،ایک جگہ پہنچا تو دیکھا کہ مولاؑایک کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں،ان کا چہرہ کنوئیں کی طرف ہے اور آپؑ باتیں کررہے ہیں اور کنوئیں میں سے بھی جواب آرہا ہے،جیسے ہی آپ ؑنے میرے قدموں کی چاپ سنی تو فرمایا:کون ہے؟
میں عرض کیا:میثم۔
آپ ؑنے فرمایا:کیا میں نے تمہیں اس لکیر کے اندر رہنے کا حکم نہیں دیا تھا؟
میں نے عرض کیا:مجھے آپ ؑکے دشمنوں کا خوف تھا اس لیے آپؑ کو اس بیابان میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا،اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی گزند پہنچا تو میں آپنے آپ کو معاف نہیں کرسکوں گا۔
آپ ؑنے فرمایا:تم نے میری گفتگو سنی ہے؟
میں نے کہا:مولا!صرف آواز سنی ہے،سمجھا کچھ نہیں ہوں۔
آپ ؑنے میری طرف رخ کر کے یہ اشعار پڑھے:
وفی الصدر لبانات اذا ضاق لھا صدری
نکّت الارض بالکف وایدیت لھا سرّی
فمھما تنبت الارض فذاک النبت من بذری
’’میرے دل میں بہت سے درد ہیں،جب میں تنگ دل ہوتا ہوں تو اپنے ہاتھ زمین کو کھودتا ہوں اور اپنے درد زمین سے بیان کرتا ہوں اور انہیں اس میں چھپا دیتا ہوں،زمین سے جو گھاس اگتی ہے اس کا بیچ میرا بویا ہوا ہے یعنی اس کا بیچ میری آہ اور سوزو گداز ہے۔‘‘
اکثر اوقات امیرالمومنینؑ مسجد سے فارغ ہو کر میثمؓ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے میثمؓ سے فرمایا:میثم!تمہیں ایک خوشخبری سنائوں۔
میثمؓ نے کہا:مولاؑ! ضرور سنائیں۔
آپ ؑ نے فرمایا:لوگ تمہیں سولی پر لٹکائیں گے۔
میثمؓ نے کہا:مولا!یہ بتائیں ،کیا اس دن میں فطرت اسلام اور اپنے عقیدے پر ثابت قدم ہوں گا؟
آپ ؑ نے فرمایا:ہاں۔
قاضی نوراللہ شوستریؒ اپنی کتاب مجالس المومنینؑ کے صفحہ ۳۰۷ پر لکھتے ہیں :
حضرت علی نے میثم ؓ سے فرمایا تھا:میثم!اس دن تم کیا کرو گے جب عبیداللہ بن زیاد تمہیں مجھ سے بیزاری کے اعلان کا حکم دے گا؟
میثمؓ نے کہا:میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔
حضرت ؑنے فرمایا:اگر تم ایسا نہ کرو گے تو وہ تمہیں سولی پر لٹکا دے گا۔
میثم ؓ نے کہا:میں صبر کروں گا،راہ خدا میں یہ معمولی تکلیف ہے۔
حضرت ؑنے فرمایا:اگر تم اس دن صابر اور ثابت قدم رہے تو قیامت کے دن تم میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگے۔
حضرت علی ؑ نے میثمؓ کو جس دن کی خبر دی تھی آخر کار وہ دن آگیا،عبیداللہ بن زیاد کے حکم سے میثمؓ کو گرفتار کیا گیا،اس خبیث کو ایک شخص نے خبر دی تھی کہ یہ علیؑ کے محبوب ترین اصحاب میں سے ایک ہیں۔
ابن زیاد نے ازراہ تمسخر کہا:یہ عجمی جو صحیح طرح بات بھی نہیں کرسکتا علیؑ کا دوست ہے؟
درباریوں نے کہا:جی ہاں۔
ابن زیاد نے میثم سے پوچھا: تیرا رب کہاں ہے؟
میثم ؓنے فرمایا:’’بِالْمِرْصَادِ لِکُلِّ ظَالِمٍ وَ أَنْتَ أَحَدٌ الظُّلْمَةِ ‘‘میرا رب ظالموں کی گھات میں ہے اور تو بھی ایک ظالم ہے۔
ابن زیاد نے کہا:علی ؑ نے تجھے کیا بتایا تھا کہ میں تجھ سے کیا سلوک کروں گا؟
میثمؓ نے فرمایا:میرے مولاؑنے مجھے بتایا تھا تو مجھے سولی چڑھائے گا اور میری سولی دسویں نمبر پر ہوگی اور اس کی لکڑی سب سے چھوٹی ہوگی اور زمین سے زیاہ قریب ہوگی۔
ابن زیاد نے کہا:علیؑ نے تجھے جو خبر دی ہے میں اسے جھوٹا ثابت کر دکھائوں گا۔
میثمؓ نے کہا:ایسا ناممکن ہے،علیؑ نے جو کچھ کہاہےانہوں نے پیغمبر اکرمﷺ سے سنا ہے اور پیغمبرﷺ نے جبرئیل سے اور جبرئیلؑ نے حکم خدا سے کہا ہے، حضرت علیؑ کے فرمان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے پیغمبر اسلامﷺ جبرئیلؑ اور خدا کو جھوٹا ثابت کرنا ہوگا اور ایسا ہونا ناممکن ہے،خدا کی قسم!میں جانتا ہوںکہ کوفہ کے کس مقام پر مجھے سولی دی جائے گی اور میں تاریخ اسلام کا پہلا فرد ہوںگا،جس کے منہ میں لگام ڈالی جائے گی۔
ابن زیاد نے انہیں جیل بھیج دیا،اس وقت قید خانے میں مختار بن ابو عبیدہ ثقفی بھی قید تھے۔
میثمؓ نے مختار سے فرمایا:تو رہا ہوجائے گا اور قاتلان حسینؑ سے انتقام لے گا اور میرے قاتل عبیداللہ بن زیاد کو قتل کرے گا۔
ایک دن ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے زندن سے نکالا،ابن زیاد جلاد کو حکم دے چکا تھا کہ مختار کا سر قلم کردو کہ اتنے میں معلم عمیر،یزید سے مختار کی رہائی کا پروانہ لے کر آگیا اور مختار کو رہائی مل گئی،اس کے بعد ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم کو سولی پر چڑھادیا جائے،چنانچہ عمر و بن خریث کے گھر کے سامنے انہیں کھجور کے درخت پر لٹکا دیا گیا اور ان کے ہاتھ پائوں اور ریڑھ کی ہڈی میں میخیں گاڑ دیں گئیں۔
یہ منظر دیکھ کر عمر وبن حریث نے کہا:خدا کی قسم!میثمؓ نے کئی بار مجھ سے کہا تھا کہ میں عنقریب تمہارا ہمسایہ بنوں گا،میں سمجھتا تھا شاید میثمؓ میرے پڑوسی ابن مسعود یا کسی اور کا مکان خریدنا چاہتے ہیں۔
عمروبن حریث نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ اس درخت کے نیچے جھاڑو پھیرو اور اچھی طرح صفائی کرو۔
میثمؓ سولی پر چڑھے تو لوگ ان کو دیکھنے کے لیے آئے،میثمؓ نے سولی پر کھڑے ہو کر فضائل امیرالمومنینؑ بیان کرنا شروع کئے تو حکومت کے مخبروں نے ابن زیادہ اطلاع دی۔
اس وقت ابن زیاد حکم دیا کہ ان کے منہ میں لگام ڈالو تاکہ یہ بول نہ سکیں، تیسرے دن میثمؓ کے جسم پر نیزہ مارا گیا اور شام کے وقت ان کے دماغ اور منہ سے خون جاری ہوا اور انہوں نے شہادت پائی۔
میثمؓ کی لاش سولی پر لٹکی ہوئی تھی اور رات کے وقت کچھ پہرہ دار کچھ فاصلے پر آگ جلا کر لاش پر پہر ہ دے رہے تھے۔
سات خرما فروشوں نے آپس میں طے کیا کہ میثمؓ کی لاش کو کسی طرح سے وہاں سے نکال کر دفن کرنا چاہیے،چنانچہ انہوں نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھایا اور سولی سمیت میثمؓ کی لاش کو اٹھا کر چل دئیے،میثمؓ کی لاش کو انہوں نے سولی سے اتارا اور بنی مراد کی ایک نہر میں دفن کر کے اوپر پانی جاری کردیا،صبح ہوئی تو پہرہ داروں نے دیکھا کہ میثمؓ کی لاش موجود نہیں ہے،انہوں نے بہت تلاش کیا لیکن انہیں میثم کی لاش کا کوئی پتا نہ چل سکا۔
(حوالہ)
(قاضی شوستری،مجالس المومنین ج۱،ص۳۰۷،شیخ مفید،ارشاد ص۱۱۲)